سورة المعارج - آیت 22

إِلَّا الْمُصَلِّينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

سوائے ان نمازیوں (٨) کے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِلَّا الْمُصَلِّيْنَ ....: مگر نمازی بے صبرے اور تھڑ دلے نہیں ہوتے، وہ نہ مصیبت پر شکوہ شکایت کرتے ہیں اور نہ نعمت ملنے پر بخل کرتے ہیں۔ نماز کی صحیح ادائیگی سے آدمی میں وہ عزم اور وہ ہمت پیدا ہوتی ہے کہ وہ ایسی تمام کمزوریوں پر قابو پا لیتا ہے، کیونکہ روزانہ پانچ وقت دنیا کے کسی لالچ کے بغیر پورے شروط و آداب کے ساتھ نماز ادا کرنا بہت ہی مشکل کام ہے جو اللہ کے خوف اور آخرت پر ایمان کے بغیر ادا ہو ہی نہیں سکتا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ وَ اِنَّهَا لَكَبِيْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِيْنَ (45) الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ اَنَّهُمْ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ﴾ [ البقرۃ : 46،45 ] ’’اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو اور بے شک وہ بہت بڑی ہے مگر عاجزی کرنے والوں پر۔ جو سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور یہ کہ وہ اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘‘ آیات(۲۳) تا(۳۴) تک وہ صفات بیان فرمائی ہیں جن کے بغیر نمازی بھی’’ ہلوع‘‘ (تھڑدلا) ہی رہتا ہے۔ ان میں سے پہلی صفت اپنی نماز پر ہمیشگی ہے، یہ نہیں کہ کبھی پڑ ھ لی کبھی چھوڑ دی، کیونکہ جونہی نماز ترک کرے گا، تو صرف بے صبری اور بخل ہی واپس نہیں آئیں گے بلکہ کفر بھی دوبارہ اس میں پلٹ آئے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( بَيْنَ الْعَبْدِ وَ بَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ )) [ أبو داؤد، السنۃ، باب في رد الإرجاء : ۴۶۷۸۔ مسلم : ۸۲ ] ’’ بندے اور کفر کے درمیان نماز ترک کرنے کی دیر ہے۔‘‘