سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ
ایک سوال (١) کرنے والے نے اس عذاب کے جلد آنے کا سوال کیا ہے جو واقع ہونے والا ہے
1۔ سَاَلَ سَآىِٕلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ....: اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ ایک پوچھنے والے نے عذاب کے متعلق سوال کیا ہے (کہ وہ کب آئے گا؟) اس صورت میں ’’باء‘‘ بمعنی ’’عَنْ‘‘ ہو گی اور مراد وہ کفریہ سوال ہے جو وہ بار بار عذاب کو جھٹلانے اور مذاق کرنے کے لیے کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ يَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ﴾ [ الملک : ۲۵ ] ’’اور وہ کہتے ہیں کہ وہ(عذاب کا) وعدہ کب پورا ہو گا، اگر تم سچے ہو؟‘‘ دوسرا معنی یہ ہے کہ ایک مانگنے والے نے عذاب مانگا ہے۔ اس سے مراد کفار کے سرکش لوگوں کی وہ دعا ہے جس میں انھوں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ اے اللہ! محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) جو کچھ لے کر آئے ہیں اگر یہ حق ہے تو توُ ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی درد ناک عذاب لے آ۔ (دیکھیے انفال : ۳۲) اور کفار کا وہ مطالبہ بھی مراد ہے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے رہتے تھے کہ ہم پر جلد از جلد عذاب لے آؤ، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ يَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ﴾ [ العنکبوت : ۵۳ ] ’’اور یہ لوگ آپ سے جلدی عذاب لانے کا سوال کرتے ہیں۔‘‘ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، پوچھنے والا عذاب کے متعلق پوچھتا ہے کہ وہ کب آئے گا؟ مانگنے والا مطالبہ کرتا ہے کہ عذاب لے آؤ، تو سن لو کہ وہ عذاب کافروں پر ضرور آ کر رہے گا اور کوئی اسے ہٹا نہیں سکے گا، مگر وہ اپنے وقت پر آئے گا۔ آپ ان کے مطالبے پر نہ اس کے جلدی آنے کا سوال کریں اور نہ ان کے مذاق اڑانے پر کسی قسم کی بے صبری کامظاہرہ کریں، وہ اسے دور خیال کر رہے ہیں اور ہمیں وہ بالکل قریب نظر آرہا ہے۔ 2۔ لِلْكٰفِرِيْنَ لَيْسَ لَهٗ دَافِعٌ : ’’ لِلْكٰفِرِيْنَ‘‘ یا تو ’’ وَاقِعٍ‘‘ کے متعلق ہے، یعنی وہ عذاب کافروں پر واقع ہونے والا ہے، کوئی اسے ہٹا نہیں سکتا، یا ’’ دَافِعٌ ‘‘ کے متعلق ہے، یعنی کافروں سے اسے کوئی ہٹانے والا نہیں۔