سورة الحاقة - آیت 25

وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِشِمَالِهِ فَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ (10) میں دیا جائے گا، وہ کہے گا، اے کاش ! مجھے میرا نامہ اعمال نہ دیا گیا ہوتا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِشِمَالِهٖ....: جن لوگوں کو بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا وہ نہایت پریشانی میں یہ باتیں کہیں گے جو ان آیات میں ذکر ہوئی ہیں۔ یہ بائیں ہاتھ میں اعمال نامے والے لوگ کافر ہوں گے، اس کی دلیل آگے آنے والی آیت (۳۳) ہے: ﴿اِنَّهٗ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ الْعَظِيْمِ﴾ ’’وہ عظمت والے اللہ پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔‘‘ ایمان والوں کو دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملے گا، البتہ وہ ایمان والے جو کچھ عرصہ آگ میں رہیں گے ان کے بارے میں اختلاف ہے کہ انھیں اعمال نامہ آگ میں جانے سے پہلے ملے گا یا آگ سے نکلنے کے بعد، راجح یہی ہے کہ آگ سے نکلنے کے بعد ملے گا، کیونکہ اعمال نامہ ملنے کے بعد اگر انھیں آگ میں بھیجا جارہا ہو تو ان کے منہ سے ’’ هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْ ‘‘ کے خوشی کے الفاظ نہیں نکل سکتے۔(التسہیل) ’’يَالَيْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَةَ‘‘ یعنی موت میرا کام تمام کر دیتی، اور مجھے دوبارہ نہ اٹھایا جاتا۔ ’’ مَا اَغْنٰى عَنِّيْ مَالِيَهْ (28) هَلَكَ عَنِّيْ سُلْطٰنِيَهْ ‘‘ مال اور سرداری کی حرص کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا ذِئْبَانِ جََائِعَانِ أُرْسِلَا فِيْ غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِيْنِهٖ )) [ترمذي، الزھد، باب ما ذئبان جائعان....: ۲۳۷۶، قال الألباني صحیح ] ’’دو بھوکے بھیڑیے جو بھیڑ بکریوں میں چھوڑ دیے جائیں، وہ انھیں اس سے زیادہ تباہ و برباد نہیں کرتے جتناآدمی کی مال اور سرداری کی حرص اس کے دین کو تباہ وبرباد کرتی ہے۔‘‘ تمام عمر انھی دو چیزوں کو حاصل کرنے کی تگ و دو میں گزار دینے کے بعد اس وقت افسوس سے کہے گا کہ میرا مال میرے کسی کام نہ آیا اور میری سرداری بھی برباد ہو گئی۔ ’’ سُلْطٰنِيَهْ ‘‘ ’’سُلْطَانٌ‘‘ سے مراد دلیل و حجت ہو تو مطلب یہ ہے کہ میرے سارے دلائل اور حجت بازیاں، جن سے میں حق والوں کو لاجواب کرتا تھا، آج بے کار ہو گئے اور سرداری و حکومت ہو تو مطلب یہ ہے کہ آج میرا سارا اقتدار ختم ہو گیا۔ وہ جتھے اور پارٹیاں، وہ فوج اور پولیس کے دستے، وہ اہلِ خانہ، وہ نوکر چاکر جن پر میرا حکم چلتا تھا سب غائب ہو گئے۔ دوسروں پر اقتدار تو دور کی بات ہے اپنے ہی اعضا نے میری سرداری ماننے سے انکار کر دیا ہے، بلکہ میرے خلاف شہادتیں دے رہے ہیں۔ ’’ سُلْطٰنِيَهْ ‘‘ سے حجت و دلیل اور حکومت و سرداری دونوں بھی مراد ہو سکتے ہیں۔