وَانشَقَّتِ السَّمَاءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ وَاهِيَةٌ
اور آسمان پھٹ پڑے گا، وہ اس دن کمزور بھر بھرا ہوجائے گا
1۔ وَ انْشَقَّتِ السَّمَآءُ....:’’ وَاهِيَةٌ ‘‘ ’’وَهٰي يَهِيْ وَهْيًا‘‘ (ض، س، ف) (کمزور ہونا، بودا ہونا) سے اسم فاعل ہے۔ دوسرے نفخہ کے ساتھ یہ مضبوط آسمان جس میں لاکھوں کروڑوں سال سے ایک شگاف بھی نہیں پڑا، بالکل کمزور ہو کر پھٹ جائے گا اور فرشتے اس کے کناروں پر چلے جائیں گے۔ اس دن آٹھ فرشتے عرش الٰہی کو اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے، پھر اللہ تعالیٰ اور فرشتے صف در صف زمین پر تشریف لائیں گے۔ ادھر ایک طرف جہنم لائی جائے گی (دیکھیے فجر: ۲۱تا۲۳)، دوسری طرف جنت قریب لائی جائے گی۔ (دیکھیے شعراء : 91،90) اس وقت سب لوگ اپنے اعمال کی جزا و سزا کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جائیں گے، کسی شخص کا کوئی عمل چھپا نہیں رہ سکے گا۔ 2۔ یہ آیت اللہ تعالیٰ کے عرش کے وجود کی زبردست دلیل ہے۔ جو لوگ عرشِ الٰہی کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے مراد صرف حکومت ہے، قیامت کے دن آٹھ فرشتوں کا عرشِ الٰہی کو اٹھائے ہوئے ہونا ان کی تردید کرتا ہے۔ یہ حضرات نہ عرش کے وجود کے قائل ہیں، نہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونا مانتے ہیں، نہ اللہ تعالیٰ کا قیامت کے دن زمین پر آنا مانتے ہیں اور نہ اس کا اوپر کی جانب ہونا مانتے ہیں، حالانکہ یہ سب کچھ قرآن مجید میں واضح الفاظ میں موجود ہے۔ ایک بزرگ جنھوں نے ہر جگہ عرشِ الٰہی کی تاویل حکومت و فرماں روائی سے کی ہے، اس مقام پر آٹھ فرشتوں کے عرشِ الٰہی کو اٹھانے کے صریح الفاظ کی کوئی تاویل نہیں کر سکے تو انھوں نے اسے آیاتِ متشابهات میں سے قرار دے کر تسلیم کیاہے کہ ’’ہم نہ یہ جان سکتے ہیں کہ عرش کیا چیز ہے اور نہ سمجھ سکتے ہیں کہ قیامت کے روز آٹھ فرشتوں کے اس کو اٹھانے کی کیفیت کیا ہو گی۔‘‘ کیا ہی بہتر ہوتا کہ اسی طرح وہ اللہ کے عرش کے اوپر ہونے کو بھی مانتے اور اس کے زمین پر آنے کو بھی مانتے اور اس کی کیفیت اللہ کے سپرد کر دیتے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر کس طرح ہے اور وہ زمین پر کس طرح اترے گا، کیونکہ قرآن و حدیث کی نصوص اور سلف صالحین کا یہی طریقہ ہے۔ مزید دیکھیے سور ۂ فجر (۲۲) کی تفسیر۔ تفسیر ماجدی میں ہے : ’’یہ کہنا کہ فرشتوں کا حامل عرش ہونا حق تعالیٰ کی شانِ قیومیت کے منافی ہے، محض اپنی سطحیت کا اظہار کرنا ہے، اگر قیومیت کے یہ معنی لے لیے جائیں تو ایک اس مسئلہ پر کیا موقوف ہے، ملائکہ کو واسطہ بنا کر ان سے کام لیتے رہنے کا سارا نظام ہی باطل ہو جاتا ہے۔‘‘