وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ
اور کفار جب آپ سے قرآن (17) سنتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ مارے غیظ و غضب کے آپ کو اپنی نگاہوں سے پھسلا دیں گے، اور کہتے ہیں یہ دیوانہ آدمی ہے
وَ اِنْ يَّكَادُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَيُزْلِقُوْنَكَ....: اس آیت میں ’’ اِنْ ‘‘ اصل میں ’’ إِنَّ‘‘ (نون مشدد کے ساتھ) تھا، کیونکہ بعد میں ’’ لَيُزْلِقُوْنَكَ ‘‘ پر لام آرہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کفار کو اللہ تعالیٰ کی آیات سناتے اور بت پرستی کی مذمت کرتے تو وہ سخت غصے میں آ کر آپ کو قہر کی نظر سے گھور گھور کر دیکھتے اور آپ کو دیوانہ قرار دیتے۔ سورۂ حج (۷۲) میں ہے کہ قریب ہے کہ وہ ہماری آیات پڑھنے والوں پر حملہ ہی کر دیں۔ ’’ لَيُزْلِقُوْنَكَ ‘‘ ’’أَزْلَقَ يُزْلِقُ‘‘ (افعال) پھسلانا۔ اس کا معنی ’’ہلاک کرنا‘‘ بھی آتا ہے، کیونکہ پھسل کر گرنے سے آدمی ہلاک بھی ہو جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کافر لوگ جب ذکر سنتے ہیں تو آپ کو اتنے غصے اور اتنی تیز نظروں سے گھور گھور کر دیکھتے ہیں جیسے آپ کو آپ کے موقف ہی سے پھسلا دیں گے۔ دوسرا معنی ہے جیسے آپ کو ہلاک ہی کر دیں گے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح کہا جاتا ہے، فلاں شخص نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے مجھے کھا ہی جائے گا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ بعض قبیلے ایسے تھے کہ جن کی نظر بہت جلد لگ جاتی تھی، اس لیے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بری نظروں سے دیکھتے تھے، تاکہ آپ کو نظر لگ جائے۔ اگرچہ نظر کا حق ہونا صحیح احادیث سے ثابت ہے، لیکن یہاں اس تفسیر کا موقع نہیں، کیونکہ اگر کوئی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر دیکھے تو نظر لگا کرتی ہے، غصے کی نظر سے نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آیت میں ان کے دیکھنے کو ’’ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ‘‘سے مقید کیا ہے، یعنی جب وہ ذکر سنتے ہیں تو آپ کو ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ایسے غصے کے وقت نظر لگنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور وہ روایتیں بھی مضبوط نہیں ہیں۔ [ کَذَا قَالَ صَاحِبُ أَحْسَنِ التَّفَاسِیْرِ وَ ابْنُ الْجَوْزِيْ فِيْ زَادِ الْمَسِیْرِ ]