سورة الملك - آیت 2

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ہے، تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہے، اور وہ زبردست، بڑا معاف کرنے والا ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ....: یہاں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کی ہوئی چند چیزوں کا ذکر فرمایا جو مخلوق کی قدرت سے باہر ہیں، تاکہ انسان کے دل میں اللہ کی قدرت کا پورا یقین جم جائے ۔ اس مقام پر اپنی قدرتوں میں سے پہلی چیز موت و حیات ذکر فرمائی، کیونکہ موت اور زندگی میں انسان کے تمام احوال پورے پورے آجاتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی دنیا میں آنے سے پہلے کی حالت کو موت قرار دیا اور دنیا میں آنے کے بعد یہاں سے جانے کو بھی موت قرار دیا۔ اسی طرح دنیا میں آنے کو زندگی قرار دیا، پھر موت کے بعد اٹھنے کو زندگی قرار دیا، جیسا کہ فرمایا : ﴿كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ﴾ [ البقرۃ : ۲۸ ] ’’تم کیسے اللہ کا انکار کرتے ہو، حالانکہ تم بے جان تھے تو اس نے تمھیں زندگی بخشی، پھر تمھیں موت دے گا، پھر تمھیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ یہاں فرمایا کہ اللہ نے موت و حیات کو پیدا فرمایا۔ معلوم ہوا کہ موت بھی ایک مخلوق ہے، یہ عدم محض(بالکل نہ ہونے) کا نام نہیں، کیونکہ دنیا میں آنے سے پہلے بھی انسان اللہ کے علم اور اس کی تقدیر میں موجود تھا اور اس کے دنیا میں آنے کا وقت مقرر تھا مگر روح و جسم کا اتصال نہیں تھا، اسے موت قرار دیا، پھر دنیا میں آنے کے بعد روح جسم سے جدا ہوئی تو اسے بھی موت قرار دیا ۔ قیامت کے دن موت ایک مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يُؤْتٰی بِالْمَوْتِ كَهَيْئَةِ كَبْشٍ أَمْلَحَ فَيُنَادِيْ مُنَادٍ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ! فَيَشْرَئِبُّوْنَ وَ يَنْظُرُوْنَ فَيَقُوْلُ هَلْ تَعْرِفُوْنَ هٰذَا ؟ فَيَقُوْلُوْنَ نَعَمْ، هٰذَا الْمَوْتُ، وَكُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ، ثُمَّ يُنَادِيْ يَا أَهْلَ النَّارِ! فَيَشْرَئِبُّوْنَ وَ يَنْظُرُوْنَ، فَيَقُوْلُ هَلْ تَعْرِفُوْنَ هٰذَا؟ فَيَقُوْلُوْنَ نَعَمْ هٰذَا الْمَوْتُ، وَكُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ، فَيُذْبَحُ ثُمَّ يَقُوْلُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ ! خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ، وَ يَا أَهْلَ النَّارِ! خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ، ثُمَّ قَرَأَ : ﴿ وَ اَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ﴾ وَهٰؤُلاَءِ فِيْ غَفْلَةٍ أَهْلُ الدُّنْيَا ﴿وَ هُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ﴾ )) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ عزوجل : ﴿وأنذرھم یوم الحسرۃ﴾ : ۴۷۳۰ ] ’’موت کو ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا، پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا : ’’اے اہلِ جنت!‘‘ وہ گردن اٹھا کر دیکھیں گے تو وہ کہے گا : ’’اسے پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں! یہ موت ہے۔‘‘ وہ سب اسے دیکھ چکے ہوں گے، پھر وہ اعلان کرے گا : ’’اے اہل نار !‘‘ وہ گردن اٹھا کر دیکھیں گے تو وہ کہے گا : ’’اسے پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں! یہ موت ہے۔‘‘ وہ سب اسے دیکھ چکے ہوں گے۔ تو اسے ذبح کر دیا جائے گا، پھر کہے گا : ’’اے اہلِ جنت! (اب تمھارے لیے) ہمیشہ زندہ رہنا ہے، موت نہیں اور اے اہلِ نار! (تمھارے لیے بھی) ہمیشہ زندہ رہنا ہے، موت نہیں۔‘‘ پھر یہ آیت پڑھی : ﴿ وَ اَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ ﴾ (اور انھیں پچھتاوے کے دن سے ڈرا جب ہر کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا اور وہ سرا سر غفلت میں ہیں) یعنی یہ دنیا والے سراسر غفلت میں ہیں ’’اور وہ ایمان نہیں لا رہے۔‘‘ 3۔ زندگی اور موت دونوں اس امتحان کے لیے پیدا کی گئی ہیں کہ انسانوں میں سے اچھے عمل کون کرتا ہے؟ اگر موت اور موت کے بعد والی زندگی نہ ہوتی تو آدمی اچھے اعمال کے لیے جدو جہد اور برے اعمال سے پرہیز کیوں کرتا؟ اور موت اور حیات بعد الموت نہ ہوتی تو اچھے اور برے اعمال کا بدلا کہاں ملتا اور اگر دنیا میں انسان کو زندگی نہ ملتی اور نہ عمل کا موقع ملتا تو جزا و سزا کس چیز پر ہوتی؟ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ : وہ عزیز ہے، ایسا زبردست ہے کہ اعمال کی جزا و سزا پر پورا اختیار رکھتا ہے اور ایسا غالب کہ کوئی اس پر غالب نہیں، مگر اتنی قوت و عزت کے باوجود ظالم یا سخت گیر نہیں بلکہ غفور ہے اور ایسا غفور کہ کوئی توبہ کرے تو جتنے بھی گناہ کیے ہوں بخش دیتا ہے۔ توبہ کے بغیر بھی اگر اس کے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو جسے چاہے گا بخش دے گا، فرمایا : ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾ [ النساء : ۱۱۶ ] ’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے جسے چاہے گا بخش دے گا۔‘‘ اور شرک اس لیے معاف نہیں کرے گا کہ یہ اس کے عزیز ہونے کے خلاف ہے۔