رَّسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ قَدْ أَحْسَنَ اللَّهُ لَهُ رِزْقًا
ایک رسول بھیجا ہے جو تمہارے سامنے اللہ کی کھلی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں، تاکہ وہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا، ظلمتوں سے نکال کر روشنی تک پہنچا دیں، اور جو اللہ پر ایمان لائے گا اور عمل صالح کرے گا وہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان جنتوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ نے انہیں اچھی روزی دی ہے
1۔ رَسُوْلًا يَّتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ اللّٰهِ مُبَيِّنٰتٍ:’’ رَسُوْلًا ‘‘ پچھلی آیت میں مذکور’’ ذِكْرًا ‘‘ سے بدل ہے، یعنی یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمھاری طرف عظیم ذکر نازل کیا ہے جو رسول ہے، یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود سراپا نصیحت ہے کہ اس کا قول، فعل، حال اور تقریر سب نصیحت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سورۂ حجر (۹) میں اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے : ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ﴾ (بے شک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں) اس میں ’’ الذِّكْرَ ‘‘ سے مراد صرف قرآن مجید نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ ساری وحی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی بھی حفاظت فرمائی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور احوال و تقریرات کی بھی حفاظت فرمائی ہے۔ 2۔ لِيُخْرِجَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ....: اس کی وضاحت کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۵۷) کی تفسیر۔