فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا
پس جب وہ مطلقہ عورتیں اپنی عدت (٢) کی انتہا کو پہنچنے لگیں، تو تم انہیں نیک نیتی کے ساتھ روک لو، یا انہیں خوش اسلوبی کے ساتھ جدا کردو، اور تم اپنے لوگوں میں سے دو لائق اعتبار آدمی کو گواہ بنا لو، اور تم اللہ کی رضا کے لئے گواہی دو، ان باتوں کی نصیحت اسے کی جاتی ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لئے راستہ پیدا کردیتا ہے
1۔ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ : یعنی جب ان کی عدت ختم ہونے کے قریب پہنچ جائے، کیونکہ عدت ختم ہونے کے بعد تو رجوع ہو نہیں سکتا۔ 2۔ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ....: یعنی جب عورتوں کی عدت ختم ہونے کے قریب ہو، صرف اتنی باقی ہو جس میں ان سے رجوع ہو سکتا ہو تو انھیں معروف (اچھے طریقے) کے ساتھ روک لو یا معروف کے ساتھ ان سے جدا ہو جاؤ۔ معروف کے ساتھ روکنے کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ اچھے طریقے سے ان کے ساتھ رہنے کی نیت سے ان سے رجوع کر کے حسب سابق بیوی بنا کر رکھ لو اور اس رجوع پر گواہ بناؤ اور معروف طریقے سے جدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے رجوع نہ کرو بلکہ انھیں ان کے حال پر رہنے دو، تاکہ عدت ختم ہو جائے اور وہ خود بخود تم سے جدا ہو جائیں، پھر کسی لڑائی جھگڑے یا برا بھلا کہنے کے بغیر انھیں رخصت کر دو۔ اس میں اچھائی یہ ہے کہ اگرچہ عدت گزرنے کی وجہ سے وہ آزاد ہیں کہ جس مرد سے چاہیں شادی کر لیں، مگر انھیں پہلے خاوندوں سے شادی کا بھی اختیار ہے۔ 3۔ سورۂ بقرہ میں اور یہاں پہلی یا دوسری طلاق کے بعد دو ہی صورتیں بیان فرمائی ہیں، ایک یہ کہ عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کر لو، دوسری یہ کہ اچھے طریقے سے چھوڑ دو، یعنی رجوع نہ کرو بلکہ عدت ختم ہونے دو اور اچھے طریقے سے جدا ہو جاؤ، عدت ختم ہونے سے پہلے دوسری یا تیسری طلاق دینے کا حکم نہیں دیا۔ جس عورت کو حیض آتا ہو اس کے لیے طلاقِ سنت یہی ہے۔ بعض حضرات طلاق کا سنت طریقہ یہ بیان کرتے ہیں کہ جب عورت حیض سے پاک ہو تو جماع کے بغیر اسے ایک طلاق دو، اگلے طہر میں دوسری طلاق دو اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق دو، حالانکہ یہ ہرگز طلاقِ سنت نہیں ہے۔ یہ طلاقِ سنت کیسے ہو سکتی ہے جب کہ ابھی پہلی طلاق کی عدت جاری ہے، نہ وہ آخر کو پہنچی ہے نہ اس سے رجوع ہوا ہے، تو دوسری اور تیسری طلاق کا کیا مطلب؟ پھر اس میں بلا ضرورت عورت کو ہمیشہ کے لیے حرام کرنے کی تلقین کی گئی ہے جو شریعت کے مقصد ہی کے خلاف ہے۔ طلاق سنت صرف دو ہی ہیں، ایک وہ جو آیت میں مذکور ہے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ عورت حیض سے پاک ہو تو جماع کے بغیر اسے طلاق دی جائے، پھر اگر اسے بسانے کی نیت ہو تو عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کر لے، یا عدت ختم ہو جانے دے، جس سے وہ خود بخود جدا ہو جائے گی۔ طلاقِ سنت کی دوسری صورت یہ ہے کہ حمل کی حالت میں طلاق دے، پھر وضع حمل سے پہلے یا تو رجوع کرلے یا عدت ختم ہونے پر علیحدگی اختیار کرلے۔ ہر طہر میں طلاق کو سنت قرار دینے والے دلیل میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول بیان کرتے ہیں، سنن نسائی میں ہے : ((أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ أَيُّوْبَ قَالَ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِيْ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ أَنَّهُ قَالَ طَلاَقُ السُّنَّةِ تَطْلِيْقَةٌ وَهِيَ طَاهِرٌ فِيْ غَيْرِ جِمَاعٍ فَإِذَا حَاضَتْ وَطَهُرَتْ طَلَّقَهَا أُخْرٰی فَإِذَا حَاضَتْ وَطَهُرَتْ طَلَّقَهَا أُخْرٰی ثُمَّ تَعْتَدُّ بَعْدَ ذٰلِكَ بِحَيْضَةٍ )) [ نسائي، الطلاق، باب طلاق السنۃ : ۳۴۲۳ ] ’’عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’طلاق سنت یہ ہے کہ عورت کو طہر کی حالت میں جماع کے بغیر ایک طلاق دے، پھر جب اسے حیض آئے اور وہ پاک ہو تو اسے دوسری طلاق دے، پھر جب اسے حیض آئے اور وہ پاک ہو تو اسے تیسری طلاق دے، پھر اس کے بعد ایک حیض عدت گزارے۔‘‘ مگر اس روایت میں طلاقِ سنت کی جو تفصیل آئی ہے درست نہیں، کیونکہ یہ قرآن کی آیت کے خلاف ہے اور خود عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے طلاق کا طریقہ آیت کے مطابق اس سند سے بہتر سند کے ساتھ ثابت ہے۔ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (( حَدَّثَنَا وَكِيْعٌ، عَنْ إِسْرَائِيْلَ، عَنْ أَبِيْ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ قَالَ مَنْ أَرَادَ الطَّلاَقَ الَّذِيْ هُوَ الطَّلاَقُ فَلْيُطَلِّقْهَا تَطْلِيْقَةً، ثُمَّ يَدَعُهَا حَتّٰی تَحِيْضَ ثَلاَثَ حِيَضٍ )) [مصنف ابن أبي شیبۃ، الطلاق، باب ما یستحب من طلاق السنۃ : 4؍5، ح : ۱۸۰۳۶ ] ’’عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’جو شخص طلاق دینا چاہے، جو اصل طلاق ہے، وہ عورت کو ایک طلاق دے، پھر اسے اس کے حال پر چھوڑ دے یہاں تک کہ اسے تین حیض آ جائیں۔‘‘ واضح رہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی دونوں روایتوں کی سند ابو اسحاق سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تک ایک ہی ہے، پھر نسائی کی روایت میں ابو اسحاق سے بیان کرنے والے اعمش ہیں جو مشہور مدلس ہیں، جب کہ ابن ابی شیبہ کی سند میں ابو اسحاق سے بیان کرنے والے ان کے پوتے اسرائیل بن یونس بن اسحاق ہیں جن کے متعلق ابو حاتم نے فرمایا : ’’هُوَ مِنْ أَتْقَنِ أَصْحَابِ أَبِيْ إِسْحَاقَ‘‘ ’’وہ ابو اسحاق کے سب سے پختہ شاگردوں میں سے ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ اسرائیل پر تدلیس کی تہمت بھی نہیں، اس لیے انھی کی روایت معتبر ہوگی۔ نسائی میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے طلاقِ سنت کی جو تعریف اعمش نے روایت کی ہے وہ صحیح نہیں۔ 4۔ وَ اَشْهِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ : یعنی جب رجوع کا ارادہ کرو تو دو صاحب عدل آدمی گواہ بنا لو، تاکہ بعد میں کسی قسم کے جھگڑے کا یا گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ باقی نہ رہے۔ مثلاً اگر خاوند نے رجوع کر لیا ہو مگر گواہ نہ بنائے ہوں اور فوت ہو جائے تو اس کے وارث اس کی بیوی کو اس کی میراث سے یہ کہہ کر محروم کر سکتے ہیں کہ تمھیں تو طلاق ہو چکی تھی اور رجوع کا کوئی گواہ نہیں، اس لیے تم نہ اس کی بیوی رہی ہو اور نہ میراث میں تمھارا حق ہے۔ اسی طرح اگر خاوند گواہوں کے بغیر رجوع کر لے اور عورت اللہ سے نہ ڈرتی ہو اور کہیں اور نکاح کرنا چاہتی ہو تو عدت ختم ہونے پر کہہ سکتی ہے کہ خاوند نے مجھ سے رجوع نہیں کیا، اب میں آزاد ہوں اور جہاں چاہوں نکاح کروں۔ اسی طرح اگر گواہی کی شرط نہ ہو تو عدت ختم ہونے کے بعد بھی خاوند دعویٰ کر سکتا ہے کہ میں نے عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کر لیا تھا۔ رجوع کی طرح عدت کے خاتمے پر ایک دوسرے سے علیحدگی کی صورت میں بھی گواہ بنانے کا حکم ہے، تاکہ اس طرح کی قباحتوں میں سے کوئی قباحت پیدا نہ ہو جن کا اوپر ذکر ہوا۔ واضح رہے کہ سنت یہی ہے کہ طلاق اور رجوع دونوں پر گواہ بنائے جائیں، مطرف بن عبداللہ کہتے ہیں : (( أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ ثُمَّ يَقَعُ بِهَا وَلَمْ يُشْهِدْ عَلٰی طَلاَقِهَا وَلاَ عَلٰی رَجْعَتِهَا فَقَالَ طَلَّقْتَ لِغَيْرِ سُنَّةٍ وَرَاجَعْتَ لِغَيْرِ سُنَّةٍ أَشْهِدْ عَلٰی طَلاَقِهَا وَعَلٰی رَجْعَتِهَا وَلاَ تَعُدْ )) [أبو داؤد، الطلاق، باب الرجل یراجع ولایشھد : ۲۱۸۶ ] ’’عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جو اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے پھر اس سے جماع کر لیتا ہے، لیکن نہ اس نے اس کی طلاق پر کوئی گواہ بنایا ہے اور نہ اس کے رجوع پر؟ تو انھوں نے فرمایا : ’’تم نے سنت کے خلاف طلاق دی اور سنت کے خلاف ہی رجوع کیا۔ اس کی طلاق پر گواہ بناؤ اور اس کے رجوع پر بھی گواہ بناؤ اور دوبارہ ایسا نہ کرنا۔‘‘ 5۔ وَ اَقِيْمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ : یہ گواہوں کو حکم ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے شہادت دو۔ یہ حکم اس لیے دیا کہ گواہی دینے میں آدمی کو کئی مشکلات درپیش ہوتی ہیں، اسے اپنے نہایت اہم کام ترک کرنا پڑتے ہیں، حاکم کے پاس حاضری دینا پڑتی ہے اور بعض اوقات دور دراز سے آنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی لوگوں کی ناراضی کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے اور کئی اور موانع بھی ہوتے ہیں، صرف اللہ کی رضا ایسی چیز ہے جس کی خاطر آدمی ہر مشقت برداشت کرتے ہوئے شہادت دیتا ہے اور سچی شہادت دیتا ہے۔ 6۔ ذٰلِكُمْ يُوْعَظُ بِهٖ....: بعض حضرات نے یہاں یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اوپر طلاق کا وقت مقرر کرنے یا اس کا شمار کرنے، عدت کے دوران گھر سے نہ نکالنے، عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کر لینے یا علیحدگی اختیار کرنے اور گواہ بنانے کے جو احکام دیے گئے ہیں ان کی حیثیت وعظ و نصیحت کی ہے، قانون کی نہیں۔ ان حضرات کی یہ بات درست نہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ احکام بھی قانون کی حیثیت رکھتے ہیں، طلاق یا رجوع یا جو بھی عمل ان کے خلاف ہوگا اس کا کچھ اعتبار نہیں، مثلاً کوئی شخص عدت کا شمار ہی نہیں کرتا تو اس کا رجوع یا فراق کیسے معتبر ہو سکتا ہے؟ ہاں اگر کسی دوسری دلیل سے ثابت ہو جائے کہ ان میں سے فلاں حکم استحباب کے لیے ہے تو الگ بات ہے۔ قرآن مجید کی اصطلاح میں وعظ کا لفظ نہایت تاکید والے احکام کے لیے آتا ہے، جن کے قانون ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں۔ دیکھیے سورۂ مجادلہ (۳)، بقرہ (۲۳۱)، نحل (۹۰) اور نور (۱۷)۔ 7۔ وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا : میاں بیوی کے باہمی معاملات کو ان کے سوا یا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اگر ان میں سے کوئی ظلم، زیادتی یا خیانت کے بعد غلط بیانی پر اتر آئے تو دنیا میں اسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا، صرف اللہ تعالیٰ کا ڈر ہی ایسی چیز ہے جو انھیں ہر قسم کے گناہ سے باز رکھ سکتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر معاملے کی طرح نکاح و طلاق کے معاملے میں بھی اپنے تقویٰ کی تاکید فرمائی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کے موقع پر جو تین آیات پڑھتے تھے ان تینوں میں تقویٰ کی تاکید فرمائی ہے۔ یہاں اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ گھریلو جھگڑوں میں آدمی اپنے آپ کو حق پر ثابت کرنے کے لیے غلط کام یا غلط بات کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس طرح میرے مسائل حل ہو جائیں گے اور اگر میں اللہ سے ڈر کر صحیح کام کروں گا یا صحیح بات کروں گا تو پھنس جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آسان یا مشکل ہر موقع پر تم اللہ سے ڈرتے رہو اور وہی کام کرو جو اس کے تقویٰ کا تقاضا ہے۔ پھنسنے سے مت گھبراؤ، جو بھی اللہ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنا دے گا اور تقویٰ اختیار کرنے میں اگر کوئی نقصان ہوتا ہے، بیوی ساتھ نہیں رہتی یا مال کا نقصان ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی تلافی کے لیے اس سے بھی بہتر چیز وہاں سے دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوگا۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے بگڑے ہوئے معاملات کو درست کرنے کے لیے چالاکی اختیار کرنے اور جھوٹ فریب سے اپنے آپ کو حق پر ثابت کرنے کے بجائے اللہ سے ڈرنے اور سیدھی اور صاف بات کہنے کا حکم دیا اور اس پر تمام بگڑے ہوئے معاملات کو درست کر دینے اور گزشتہ غلطیوں پر پردہ ڈال دینے کا وعدہ کیا، فرمایا : ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا (70) يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا﴾ [ الأحزاب : 71،10 ] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور بالکل سیدھی بات کہو۔ وہ تمھارے لیے تمھارے اعمال درست کر دے گا اور تمھارے لیے تمھارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے تو یقیناً اس نے کامیابی حاصل کرلی، بہت بڑی کامیابی۔‘‘ 8۔ ’’ وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا (2) وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ‘‘ کی جو تفسیر اوپر کی گئی ہے وہ اس مقام کی مناسبت سے ہے، ورنہ آیت کے الفاظ عام ہیں۔ اس لیے صرف نکاح و طلاق ہی نہیں، کسی مسئلے میں بھی جو شخص اللہ سے ڈرے گا اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی اس کی نافرمانی سے بچے گا اللہ تعالیٰ جلدی یا دیر سے اس کے لیے نکلنے کا راستہ ضرور نکال دے گا اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا۔ اسی طرح جو اللہ سے ڈرتا رہے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا کے غم، آخرت کی فکر اور موت اور قیامت کی سختیوں سے نکلنے کا راستہ بھی بنا دے گا۔ 9۔ ابن کثیر نے ابن ابی حاتم کے حوالے سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ذکر کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : (( إِنَّ أَجْمَعَ آيَةٍ فِي الْقُرْآنِ : ﴿ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ﴾ [النحل:۹۰ ] وَإِنَّ أَكْبَرَ آيَةٍ فِي الْقُرْآنِ فَرَجًا : ﴿ وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا﴾ [الطلاق:۲ ] ’’قرآن کی سب سے جامع آیت ’’ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ ‘‘ ہے اور قرآن کی مشکل سے نکلنے کی سب سے بڑی آیت ’’ وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا ‘‘ ہے۔‘‘ ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا کہ اس کی سند جید ہے۔ 10۔ واضح رہے کہ اس مقام پر ابن کثیر نے مالک بن اشجعی رضی اللہ عنہ کے بیٹے عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کا واقعہ ذکر کیا ہے جو دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا اور انھوں نے اسے باندھ رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی طرف پیغام بھیجو کہ وہ ’’لاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللّٰهِ‘‘ کثرت سے پڑھے، جس کے نتیجے میں اس کی ہتھکڑیاں گر گئیں اور وہ دشمن کے اونٹ سمیٹ کر خیریت سے واپس آگیا۔ اس پر یہ آیت اتری : ﴿ وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا (2) وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ﴾ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور قدرت کے لحاظ سے ایسا ہونا کچھ مشکل نہیں، مگر تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے لکھا ہے کہ اس کی سب سندیں مرسل یا منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہیں۔