ذَٰلِكَ بِأَنَّهُ كَانَت تَّأْتِيهِمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالُوا أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا فَكَفَرُوا وَتَوَلَّوا ۚ وَّاسْتَغْنَى اللَّهُ ۚ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
یہ اس لئے کہ ان کے پیغامبر ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے، تو وہ کہتے تھے کہ کیا ہماری رہنمائی انسان کریں گے، پس انہوں نے کفر کیا اور منہ پھیر لیا، اور اللہ نے ان کی پرواہ نہیں کی، اور اللہ بڑا بے نیاز اور تمام تعریفوں کا سزا وار ہے
1۔ ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ كَانَتْ تَّاْتِيْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ: ’’ بِاَنَّهٗ ‘‘ میں ’’ هٗ ‘‘ ضمیر کو ضمیر شان کہا جاتا ہے، اس کا مقصد اس بات کی اہمیت کا اظہار ہوتا ہے جو بعد میں آ رہی ہوتی ہے۔’’بینات‘‘ کا لفظی معنی واضح اور روشن چیزیں ہے۔ رسول جو بینات لے کر آئے ان میں وہ معجزے بھی شامل ہیں جو ان کی رسالت کی واضح دلیل تھے اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آیات اور عقلی دلائل بھی جو بالکل واضح اور روشن تھے، جنھیں سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں تھی، ان بینات کو دیکھ اور سن کر ان کے رسول ہونے کا یقین حاصل ہوتا تھا۔ 2۔ فَقَالُوْا اَبَشَرٌ يَّهْدُوْنَنَا: ’’بَشَرٌ ‘‘ اسم جنس ہے جو جمع پر بھی بولا جاتا ہے، جیسا کہ یہاں ’’ يَهْدُوْنَنَا ‘‘ سے ظاہر ہے اور واحد پر بھی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُهٗ﴾ [ القمر: ۲۴ ] ’’کیا ایک آدمی جو ہمیں سے ہے اکیلا، ہم اس کے پیچھے لگ جائیں؟ ‘‘کفار کے قول میں ’’ بَشَرٌ ‘‘ کو تحقیر کے لیے بطور نکرہ استعمال کیا گیا ہے، گویا وہ کہہ رہے ہیں ’’کیا یہ عام سے بشرہماری رہنمائی کریں گے؟‘‘وہ کسی بشر کو رسول ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، خواہ اس کی رسالت ہر طرح سے ثابت ہوجائے۔ ان کے خیال میں رسول فرشتہ ہوناچاہیے یا خود اللہ تعالیٰ کو ان کے پاس آنا چاہیے۔ (دیکھیے فرقان : ۲۱) یہی وتیرہ پہلے تمام انبیاء کے منکرین کا تھا اور یہی کفار قریش نے اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر ان کے اس باطل خیال کا ذکر کیا اور اس کا ردّ فرمایا۔ دیکھیے بنی اسرائیل(95،94)، ابراہیم (11،10)، کہف (۱۱۰)، مومنون (۳۳)، شعراء (۸۶)، یٰس ( ۱۵) اور سورۂ انعام(۹۱)۔ 3۔ فَكَفَرُوْا وَ تَوَلَّوْا وَّ اسْتَغْنَى اللّٰهُ....: جب انھوں نے بشر کی رسالت کو محال قرار دیا تو اس کا واضح نتیجہ یہی تھا کہ انھوں نے رسولوں پر ایمان لانے سے انکار کر دیا اور منہ پھیر لیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی کچھ پروا نہ کی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں، وہ ساری کائنات سے مستغنی اور بے پروا ہے۔ وہ اکیلا تمام خوبیوں کا مالک ہے، کسی کے کفر سے اسے کوئی نقصان نہیں اور نہ ہی کسی کے ایمان سے اس کا کوئی فائدہ ہے۔ ایمان کا فائدہ اور کفر کا نقصان خود انسان ہی کو ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ آلِ عمران( ۹۷) اور سورۂ زمر (۷) کی تفسیر۔ 4۔ کفار کا معاملہ عجیب ہے، وہ بشر کو رسول ماننے کے لیے تیار نہیں مگر پتھر، لکڑی اور دھات کے بتوں کو رب مانتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ بینات دیکھ کر بھی یہ کہہ کر ایمان نہیں لاتے کہ’’کیا کوئی بشر ہماری رہنمائی کریں گے؟ ‘‘ گویا انھیں کسی بشر کی رہنمائی قبول نہیں، خواہ وہ کتنی درست اور کتنی عمدہ ہو، جبکہ وہ اپنے بڑوں کی غلط راہ پر اندھا دھند چل رہے ہیں، حالانکہ وہ بھی بشر تھے، جیساکہ فرمایا : ﴿ قَالُوْا اِنَّا وَجَدْنَا اٰبَآءَنَا عَلٰى اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰى اٰثٰرِهِمْ مُّهْتَدُوْنَ﴾ [ الزخرف : ۲۲ ] ’’انھوں نے کہا کہ بے شک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راستے پر پایا ہے اور بے شک ہم انھی کے قدموں کے نشانوں پر راہ پانے والے ہیں۔‘‘ اگر کسی بشر کی راہ پر چلنا انھیں منظور نہیں تو بڑوں کی راہ پر کیوں چلتے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ پر چلنے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ شیطان نے انھیں اور ان کے بڑوں کو اپنی راہ پر لگا رکھا ہے۔