سورة المنافقون - آیت 9

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے ایمان والو ! تمہاری دولت اور تمہاری اولاد، تمہیں اللہ کی یاد سے غافل (٧) نہ بنا دے، اور جو لوگ ایسا کریں گے وہی لوگ حقیقت معنوں میں گھاٹا اٹھانے والے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَا اَوْلَادُكُمْ: ’’لاَ تُلْهِ‘‘ ’’لَهْوٌ‘‘ میں سے باب افعال ’’أَلْهٰي يُلْهِيْ‘‘ کا نہی مؤنث غائب کا صیغہ ہے، ’’كُمْ‘‘ اس کا مفعول بہ اور ’’ اَمْوَالُكُمْ وَ لَا اَوْلَادُكُمْ ‘‘ فاعل ہے۔ فاعل جمع مکسر ہونے کی وجہ سے فعل واحد مؤنث کا صیغہ لایا گیا ہے۔ 2۔ منافقین کے برے اعمال کا حال بیان کرنے کے بعد تمام ایمان لانے والوں کو خواہ وہ مخلص ہیں یا منافق، ان دو چیزوں سے ہوشیار رہنے کی نصیحت فرمائی جو انسان کے لیے فتنہ ہیں اور نفاق کا باعث بنتی ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اَنَّمَااَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ﴾ [ التغابن:۱۵] ’’تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو محض ایک آزمائش ہیں۔‘‘ اور فرمایا، دیکھنا! تمھارے اموال اور تمھاری اولاد تمھیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں کہ ان کی وجہ سے نماز چھوڑ دو، یا اللہ کی راہ میں خرچ کرنا یا جہاد کے لیے نکلنا چھوڑ دو، یا ان کی وجہ سے جھوٹ اور خیانت کا ارتکاب کرنے لگو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر آدمی کو اس کے اموال و اولاد اللہ کے ذکر سے غافل نہ کریں تو وہ قابل مذمت نہیں ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اموال و اولاد کے علاوہ کوئی اور چیز اللہ کے ذکر سے غافل کرتی ہے تو وہ بھی مذموم ہے، مثلاً کھیل تماشے، دوستوں کی مجلس اور نام و نمود کی خواہش وغیرہ۔ کعب بن عیاض رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : (( إِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ فِتْنَةً، وَإِنَّ فِتْنَةَ أُمَّتِي الْمَالُ )) [ مسند أحمد :4؍160، ح : ۱۷۴۷۱، قال المحقق حدیث صحیح ] ’’ہر امت کے لیے کوئی نہ کوئی فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔‘‘ یعلیٰ عامری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حسن اور حسین رضی اللہ عنھما دوڑتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئے، آپ نے انھیں اپنے ساتھ چمٹا لیا اور فرمایا : (( إِنَّ الْوَلَدَ مَبْخَلَةٌ مَجْبَنَةٌ )) [ ابن ماجہ، الأدب، باب بر الوالد و الإحسان إلی البنات : ۳۶۶۶ ]’’بے شک اولاد بخیل بننے اور بزدل بننے کا باعث ہے۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ کہف کی آیت (۴۶) : ﴿اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِيْنَةُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ﴾ کی تفسیر۔ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ: ’’ ذِكْرِ اللّٰهِ ‘‘ سے صرف نماز، روزہ اور زبانی ذکر مراد نہیں، بلکہ ہر کام کے وقت اپنے رب کو یاد رکھنا مراد ہے کہ اگر مالک کی اجازت ہے تو وہ کام کرے، اگر نہیں تو نہ کرے۔ اسی طرح ہر وہ کام کرنے کی حتی الوسع کوشش کرے جس کا اس نے حکم دیا ہے اور اس سے رک جائے جس سے اس نے منع فرمایا ہے۔ وَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ: ’’ الْخٰسِرُوْنَ ‘‘ پر الف لام لانے اور اس سے پہلے ضمیر فصل سے تاکید اور حصر کا مفہوم پیدا ہوگیا کہ اصل خسارے والے صرف وہ لوگ ہیں جنھیں ان کے اموال و اولاد اللہ کی یاد سے غافل کر دیں۔ اگر اللہ کی یاد پر قائم رہنے کی وجہ سے اموال و اولاد کا نقصان ہو جائے تو اللہ تعالیٰ نے اسے خسارہ تسلیم ہی نہیں فرمایا، کیونکہ اموال و اولاد فانی ہیں اور اللہ کی یاد باقی ہے۔ جو باقی کو چھوڑ کر فانی میں مشغول ہو جائے اصل خسارے میں پڑنے والا وہ ہے۔