وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا ۚ قُلْ مَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۚ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
اور میرے نبی ! لوگ جب کوئی تجارت (١١) یا تماشادیکھ لیتے تو اس کی طرف دوڑ پر تے ہیں اور آپ کو (منبر پر) کھڑا چھوڑ دیتے ہیں، آپ بتا دیجئے کہ اللہ کے پاس جو اجر و ثواب ہے وہ لہو و لعب اور تجارت سے بہتر ہے، اور اللہ سب سے اچھا روزی دینے والا ہے
1۔ وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا اِلَيْهَا....: اس سے پہلے عام تراجم کے مطابق اس آیت کا ترجمہ ’’ اور جب وہ کوئی تجارت یا تماشا دیکھتے ہیں تو اٹھ کر اس کی طرف چلے جاتے ہیں اور تجھے کھڑا چھوڑ جاتے ہیں‘‘ کیا گیا تھا۔ اس ترجمہ کی وجہ یہ ہے کہ لفظ ’’إِذَا ‘‘ عموماً مستقبل کے لیے آتا ہے، حالانکہ اس مقام پر یہ لفظ مستقبل نہیں بلکہ ماضی کے معنی میں استعمال ہوا ہے، لہٰذا آیت کا مذکورہ بالا ترجمہ درست نہیں، بلکہ درست ترجمہ یہ ہے : ’’اور جب انھوں نے کوئی تجارت دیکھی یا تماشا تو اٹھ کر اس کی طرف چلے گئے اور انھوں نے تجھے کھڑا چھوڑ دیا۔‘‘ قرینہ اس کا یہ ہے کہ یہ فعل صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے صرف ایک دفعہ سر زد ہوا ہے، اس کے بعد انھوں نے کبھی ایسا نہیں کیا، اس لیے یہ کہنا کہ وہ جب بھی کوئی تجارت یا تماشا دیکھتے تھے تو اٹھ کر چلے جاتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑا چھوڑ جاتے تھے، ہر گز درست نہیں، بلکہ یہاں ماضی میں ہونے والے معاملے کا ذکر ہے جو صرف ایک دفعہ واقع ہوا ہے۔ مفسر ابراہیم میر سیالکوٹی نے ’’شہادۃ القرآن‘‘ (جلد دوم) میں اس کے متعلق بہت عمدہ بحث لکھی ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’ إِذْ ‘‘ اور ’’إِذَا ‘‘ دو کلمے ظروف زمانیہ میں سے ہیں۔ ’’ إِذْ ‘‘ ماضی کے لیے آتاہے اور کبھی بمعنی مستقبل بھی ہوتا ہے، جیسا کہ ’’ إِذَا‘‘ مستقبل کے لیے اور کبھی ماضی کے لیے بھی آتا ہے، چنانچہ مغنی (مغنی اللبیب) میں ’’ إِذَا ‘‘ کی بحث میں لکھا ہے : ’’ أَحَدُهُمَا أَنْ تَجِيْءَ لِلْمَاضِيْ كَمَا تَجِيْءُ إِذْ لِلْمُسْتَقْبَلِ۔ ‘‘ ’’ إِذَا‘‘ بمعنی ’’ إِذْ‘‘ کی مثال یہ آیت ہے : ﴿وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوًا انْفَضُّوْا اِلَيْهَا وَ تَرَكُوْكَ قَآىِٕمًا﴾ [ الجمعۃ : ۱۱ ] ’’اور جس وقت انھوں نے تجارت یا کھیل کا سامان دیکھا تو اس کی طرف اٹھ گئے اور تجھے کھڑا چھوڑ دیا۔ ‘‘ اور یہ آیت : ﴿حَتّٰى اِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَيْهِمْ اَنْفُسُهُمْ﴾ [ التوبۃ : ۱۱۸ ] ’’یہاں تک کہ جس وقت زمین ان پر باوجود فراخ ہونے کے تنگ ہو گئی اور ان کی جانیں بھی ان کو گراں معلوم ہوئیں۔‘‘ اور ’’إِذْ‘‘ بمعنی ’’ إِذَا‘‘ یعنی مستقبل کی مثال یہ آیت ہے : ﴿فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ (70) اِذِ الْاَغْلٰلُ فِيْ اَعْنَاقِهِمْ﴾ [ المؤمن:۷۰، ۷۱ ]’’پس یہ لوگ اس وقت ضرور جان لیں گے، جب ان کی گردنوں میں طوق پڑیں گے۔‘‘ کیونکہ ’’ سَوْفَ ‘‘ جو خاص استقبال کے لیے موضوع ہے، قرینہ موجود ہے۔‘‘ اس کے بعد مولانا میر سیالکوٹی نے اشعار عرب سے اس کی مثالیں ذکر فرمائی ہیں۔ 2۔ وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوًا انْفَضُّوْا اِلَيْهَا....: ’’ فَضَّ يَفُضُّ فَضًّا ‘‘ (ن) ’’اَلشَّيْءَ‘‘ کسی چیز کو توڑکر ریزہ ریزہ کر دینا۔ ’’ اِنْفَضَّ ‘‘ (انفعال) بکھر جانا، منتشر ہو جانا۔ مدینہ میں ایک تجارتی قافلے کی آمد پر صحابہ کے اٹھ کر چلے جانے پر ناراضی کا اظہار ہو رہا ہے۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما نے بیان کیا کہ جمعہ کے دن ایک قافلہ آیا جب کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، تو بارہ آدمیوں کے سوا سب اس کی طرف اٹھ کر چلے گئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ﴿ وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوًا انْفَضُّوْا اِلَيْهَا﴾ [ بخاري، التفسیر، باب : و إذا رأوا تجارأو لھوا : ۴۸۹۹ ] جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما ہی سے روایت ہے کہ جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، اس دوران مدینہ میں ایک قافلہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جلدی سے اٹھ کر چلے گئے، حتیٰ کہ آپ کے پاس صرف بارہ آدمی رہ گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ! لَوْ تَتَابَعْتُمْ حَتّٰی لاَ يَبْقٰی مِنْكُمْ أَحَدٌ لَسَالَ بِكُمُ الْوَادِی النَّارَ، فَنَزَلَتْ هٰذِهِ الْآيَةُ : ﴿ وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوًا انْفَضُّوْا اِلَيْهَا ﴾ وَ قَالَ فِي الاِْثْنَيْ عَشَرَ الَّذِيْنَ ثَبَتُوْا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُوْ بَكْرٍ وَعُمَرُ )) [ مسند أبي یعلٰی : ۳؍۴۶۸، ح : ۱۹۷۹، قال المحقق حسین سلیم أسد إسنادہ صحیح ] ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم سب ایک دوسرے کے پیچھے چلے جاتے، حتیٰ کہ تم میں سے ایک بھی باقی نہ رہتا تو یہ وادی تمھیں آگ کے ساتھ بہا کر لے جاتی۔‘‘ اس پر یہ آیت اتری : ﴿ وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوًا انْفَضُّوْا اِلَيْهَا وَ تَرَكُوْكَ قَآىِٕمًا﴾ جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ان باقی رہنے والے بارہ آدمیوں میں ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنھما بھی تھے۔‘‘ 3۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، اس لیے عذر کے بغیر بیٹھ کر خطبہ نہیں دینا چاہیے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے فرمایا : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن کھڑے ہوکر خطبہ دیتے، پھر بیٹھ جاتے، پھر کھڑے ہو جاتے، جیسا کہ آج کل کرتے ہیں۔‘‘ [مسلم، الجمعۃ، باب ذکر الخطبتین قبل الصلاۃ و ما فیھما من الجلسۃ : ۸۶۱ ] 4۔ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (( كَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُطْبَتَانِ يَجْلِسُ بَيْنَهُمَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَ يُذَكِّرُ النَّاسَ )) [ مسلم، الجمعۃ، باب ذکر الخطبتین قبل الصلاۃ و ما فیھما من الجلسۃ : ۸۶۲ ] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے دیا کرتے تھے، ان دونوں کے درمیان بیٹھتے تھے، آپ قرآن پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت کرتے۔‘‘ اس حدیث سے کئی باتیں ثابت ہوئیں، ایک یہ کہ جمعہ کے دو خطبے ہیں، جو کھڑے ہو کر دیے جاتے ہیں اور ان کے درمیان بیٹھا جاتا ہے۔ دوسری یہ کہ جمعہ کے خطبے میں یہ دوچیزیں ہوں تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا خطبہ ہے ورنہ نہیں، ایک یہ کہ اس میں قرآن مجید ضرور پڑھا جائے خواہ ایک آیت ہی ہو اور دوسری یہ کہ اس میں نصیحت کی جائے، اگر کسی خطبے میں تذکیر (نصیحت) نہیں تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا خطبہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ نصیحت کا مقصد یہی ہے کہ لوگ اسے سمجھیں اور اس پر عمل کریں اور یہ مقصد تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب لوگوں کو ان کی زبان میں سمجھایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جمعہ مسلمانوں کی ہفتہ وار عید ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس کی حمدو ثنا، قرآن و سنت کی تعلیم اور امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا اہتمام ہوتا ہے اور وہ آئندہ سات دنوں کے لیے نئے سرے سے مصروف عمل ہو جاتے ہیں۔ چو نکہ یہ مذہبی شعار ہے اس لیے کوئی حکومت بھی اس اجتماع کو ختم نہیں کر سکتی۔ مسلمانوں کو عمل کے اندر کوتاہی یا دینِ حق سے انحراف یا کفار سے جہاد میں غفلت کی صورت میں ان کے علماء انھیں ان کا فریضہ یاد دلاتے ہیں، مگر جس طرح دوسرے کئی شعار کا حال خراب ہوا جمعہ کے متعلق بھی بعض لوگوں نے اپنے پاس سے ایسی کئی پابندیاں لگا دیں جن کی وجہ سے مسلمان عملاً اس کے فوائد سے محروم ہو گئے۔ ہر جمعہ کو تمام مسلمان قرآن و سنت کا جو علم حاصل کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے آگاہ ہوتے تھے، اب اپنے مسائل کے لیے ان علماء کے محتاج ہو گئے جو قرآن و حدیث سے مسائل لینے کے بجائے کسی ایک فقہی مکتب کے مقلد تھے، ان علماء کے مطابق قرآن مجید کا ترجمہ عام آدمی کے لیے پڑھنا ہی درست نہ تھا۔ مدت تک برصغیر میں قرآن مجید کے فارسی یا اردو ترجمے کی کسی کو جرأت ہی نہیں ہوئی۔ ان کے مطابق عام مسلمان کا کام یہ ہے کہ وہ خود قرآن یا حدیث دیکھنے کے بجائے عالم سے مسئلہ پوچھے اور اس عالم کا کام یہ ہے کہ قرآن یا حدیث میں سے مسئلہ بتانے کے بجائے اپنے امام کا قول بیان کرے۔ اس جمعہ میں قرآن یا حدیث کے بیان کا جو امکان تھا وہ انھوں نے اس طرح ختم کیا کہ اس کے لیے شہر اور حاکم کی شرط لگا دی، تو چند مقامات کے سوا باقی ہر جگہ جمعہ ویسے ہی بند ہو گیا، جبکہ عورتوں کے لیے مسجد میں آنا سرے سے ممنوع قرار دیا۔ پھر یہ شرط لگائی کہ جمعہ کا خطبہ صرف عربی میں ہو گا، تاکہ کوئی شخص قرآن و سنت سے واقف نہ ہو سکے، حالانکہ جس امام کے وہ مقلد ہیں ان کے نزدیک نماز میں بھی قرآن کی تلاوت فارسی یا کسی اور زبان میں کی جا سکتی ہے۔ بر صغیر پاک و ہند میں مدتوں یہی سلسلہ جاری رہا،آخر کار جب عمل بالحدیث کا غلغلہ بلند ہوا اور تقلید کی پابندیوں سے آزاد علماء نے اردو میں خطبہ شروع کیا اور لوگوں کو اصل قرآن و سنت سننے کا موقع ملا تو بجائے اس کے کہ وہ حضرات بھی اردو خطبہ دیتے، انھوں نے اذان کے بعد والے دو خطبے عربی میں ضروری قرار دینے پر اصرار جاری رکھا، مگر اس کے ساتھ اپنے مذہب کے دفاع کے لیے اردو میں ایک خطبے کا اضافہ کر دیا اور اس کا نام تقریر رکھ دیا، حالانکہ خطبہ ہو یا خطاب یا تقریر، ایک ہی چیزہے۔ ان حضرات نے یہ خیال نہیں فرمایا کہ اس طرح انھوں نے اردو میں خطبہ دے کر ایک تو وہی کام کیاجس سے وہ دوسروں کو روکتے تھے اور ایک یہ کہ انھوں نے دو خطبوں کے بجائے تیسرے خطبے کی بدعت ایجاد کر لی۔ یاد رکھیں کہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا خطبہ جمعہ دینا چاہتے ہیں تو اس میں تذکیر (نصیحت) ضروری جز ہے، بلکہ یہ خطبے کا اصل مقصود ہے اور وہ لوگوں کو ان کی زبان میں سمجھائے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے خطبے صرف دو ہونے چاہییں اور عربی کے ساتھ ساتھ اسے مخاطب لوگوں کی زبان میں بھی سمجھانے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ 5۔ قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَ مِنَ التِّجَارَةِ....: یعنی اللہ کی خاطر تم جس لہو (کھیل تماشے) اور تجارت کو چھوڑو گے اللہ کے پاس اس سے کہیں بہتر بدلا دنیا اور آخرت دونوں میں موجود ہے۔ 6۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے نادانی میں یہ عمل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس پر تنبیہ فرمائی، اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جس طرح اللہ کے ذکر اور نماز کو تجارت وغیرہ پر ترجیح دی اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور ( ۳۶ ، ۳۷) میں فرمایا ہے۔