يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ
اے ایمان والو ! تم ایسی بات کیوں کہتے (٢) ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے ہو
1۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ: ان آیات میں ان لوگوں پر تعجب اور شدید ناراضی کا اظہار ہے جو وہ بات کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔ اس میں کئی طرح کے لوگ شامل ہیں، عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ہم نے آپس میں یہ ذکر کیا کہ کون ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائے اور آپ سے پوچھے کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے، مگر ہم میں سے کوئی بھی نہ اٹھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف ایک آدمی بھیجا اور ہمیں جمع کرنے کے بعد یہ سورت یعنی سورۂ صف پوری پڑھ کر سنائی۔‘‘ [ مسند أحمد :5؍ 452، ح : ۲۳۷۸۸ ] مسند احمد کے محققین نے فرمایا : ’’ إِسْنَادٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ۔‘‘ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ان آیات کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : (( كَانَ نَاسٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ قَبْلَ أَنْ يُّفْرَضَ الْجِهَادُ يَقُوْلُوْنَ لَوَدِدْنَا أَنَّ اللّٰهَ دَلَّنَا عَلٰی أَحَبِّ الْأَعْمَالِ إِلَيْهِ فَنَعْمَلَ بِهِ، فَأَخْبَرَ اللّٰهُ نَبِيَّهُ أَنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَيْهِ إِيْمَانٌ بِاللّٰهِ لاَ شَكَّ فِيْهِ، وَجِهَادُ أَهْلِ مَعْصِيَتِهِ الَّذِيْنَ خَالَفُوا الْإِيْمَانَ وَلَمْ يُقِرُّوْا بِهِ فَلَمَّا نَزَلَ الْجِهَادُ، كَرِهَ ذٰلِكَ أُنَاسٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ، وَشَقَّ عَلَيْهِمْ أَمْرُهُ، فَقَالَ اللّٰهُ سُبْحَانَهُ وَ تَعَالٰی : ﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾ [الصف : ۲ ] )) [طبري : ۲۲ ؍۶۰۶، ح : ۳۴۳۵۹ ] ’’مومنوں میں سے کچھ لوگ جہاد فرض ہونے سے پہلے کہتے تھے : ’’ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ہاں سب اعمال سے زیادہ محبوب عمل بتائے تو ہم وہ کریں۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ تمام اعمال میں سے محبوب وہ ایمان باللہ ہے جس میں کوئی شک نہ ہو اور اس کی نافرمانی کرنے والوں سے جہاد ہے جنھوں نے ایمان کی مخالفت کی اور اس کا اقرار نہیں کیا۔ پھر جب جہاد (کا حکم) نازل ہوا تو مومنوں میں سے کچھ لوگوں نے اسے ناپسند کیا اور اس کا حکم ان پر شاق گزرا، تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ان آیات سے مراد وہ لوگ ہیں جو جہاد فرض ہونے سے پہلے اس کی تمنا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ہمیں معلوم ہو کہ سب سے محبوب عمل کون سا ہے تو ہم وہ کریں گے، مگر جب جہاد کا حکم نازل ہوا تو ان میں سے کچھ لوگوں نے اس سے گریز کیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَهُمْ كُفُّوْا اَيْدِيَكُمْ وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْيَةً وَ قَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْ لَا اَخَّرْتَنَا اِلٰى اَجَلٍ قَرِيْبٍ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ وَ الْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى وَ لَا تُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا (77) اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَيَّدَةٍ﴾ [ النساء : 78،77 ] ’’کیا تونے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، پھر جب ان پر لڑنا لکھا گیا اچانک ان میں سے کچھ لوگ، لوگوں سے ڈرنے لگے، جیسے اللہ سے ڈرنا ہو یا اس سے بھی زیادہ ڈرنا اور انھوں نے کہا اے ہمارے رب! تو نے ہم پر لڑنا کیوں لکھ دیا، تو نے ہمیں ایک قریب وقت تک مہلت کیوں نہ دی۔ کہہ دے دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے اور آخرت اس کے لیے بہتر ہے جو متقی بنے اور تم پر دھاگے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمھیں پا لے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔‘‘ اور فرمایا : ﴿وَ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَوْ لَا نُزِّلَتْ سُوْرَةٌ فَاِذَا اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَّ ذُكِرَ فِيْهَا الْقِتَالُ رَاَيْتَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يَّنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ﴾ [ محمد : ۲۰ ] ’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی؟ پھر جب کوئی محکم سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں لڑائی کا ذکر کیا جاتا ہے تو تو ان لوگوں کو دیکھے گا جن کے دلوں میں بیماری ہے، وہ تیری طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے اس شخص کا دیکھنا ہوتا ہے جس پر موت کی غشی ڈالی گئی ہو۔‘‘ اسی طرح وہ لوگ بھی مراد ہیں جنھوں نے تمھیں کہا تھا کہ ہم جنگ میں پیٹھ نہیں دکھائیں گے، مگر اس عہد پر قائم نہ رہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ لَقَدْ كَانُوْا عَاهَدُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَ وَ كَانَ عَهْدُ اللّٰهِ مَسْـُٔوْلًا﴾ [ الأحزاب : ۱۵ ] ’’حالانکہ بلاشبہ یقیناً اس سے پہلے انھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ پیٹھ نہ پھیریں گے اور اللہ کا عہد ہمیشہ پوچھا جانے والا ہے۔‘‘ 2۔ ’’ لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ‘‘ کے الفاظ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ایسے کاموں کا دعویٰ کرتے ہیں جو انھوں نے نہ کیے ہیں نہ کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ہم نے جہاد کیا، ہم نے دشمن کا منہ موڑ دیا، ہم نے یہ کیا اور وہ کیا، حالانکہ انھوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ہوتا، ان کی خواہش ان کارناموں پر اپنی تعریف کی ہوتی ہے جو انھوں نے نہیں کیے۔ ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَفْرَحُوْنَ بِمَا اَتَوْا وَّ يُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ﴾ [ آل عمران : ۱۸۸ ] ’’ان لوگوں کو ہر گز خیال نہ کر جو ان (کاموں) پر خوش ہوتے ہیں جو انھوں نے کیے اور پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف ان (کاموں) پر کی جائے جو انھوں نے نہیں کیے، پس تو انھیں عذاب سے بچ نکلنے میں کامیاب ہر گز خیال نہ کر اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ 3۔ ’’ لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ‘‘ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کسی سے کوئی بھی ایسا وعدہ کرتے ہیں جسے پورا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میری امی نے مجھے بلایا، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف رکھتے تھے، کہنے لگی : ’’آؤ، میں تمھیں کچھ دوں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : (( وَمَا أَرَدْتِ أَنْ تُعْطِيْهِ؟)) ’’تم نے اسے کیا دینے کا ارادہ کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا : ’’میں اسے کھجوریں دوں گی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((أَمَا إِنَّكِ لَوْ لَمْ تُعْطِيْهِ شَيْئًا كُتِبَتْ عَلَيْكِ كِذْبَةٌ )) [أبو داؤد، الأدب، باب التشدید في الکذب : ۴۹۹۱، وقال الألباني حسن ] ’’یاد رکھو! اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو تم پر ایک جھوٹ لکھا جاتا۔‘‘ 4۔ بعض حضرات اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ آدمی جو عمل خود نہ کرتا ہو کسی دوسرے کو بھی اس کی دعوت نہ دے، حالانکہ یہاں اس کام کے وعدے یا دعوے پر سرزنش ہے جو انسان نہ کرتا ہو، ایسے کام کی دعوت پر سرزنش نہیں۔ فرائض پر عمل اور ان کی دعوت تو ہر ایک پر لازم ہے، اگر ان کی دعوت دے مگر خود عمل نہ کرے تو اس پر واقعی گرفت ہے، مگر وہ ترک عمل پر ہے دعوت پر نہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۴۴) : ﴿اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ﴾ کی تفسیر۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر خود عمل نہ کرو تو دوسروں کو کہنا چھوڑ دو، بلکہ اپنی کوتاہی پر ندامت اور شرمندگی کے احساس کے ساتھ دعوت و تبلیغ جاری رکھنی چاہیے اور امید کرنی چاہیے کہ اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ کوتاہی دور کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے گا۔ علاوہ ازیں ہر مسلمان پر دین کی ہر بات آگے پہنچانا فرض ہے۔ فرائض کے بارے میں خود عمل اور دوسروں تک پہنچانا دو کام فرض ہیں، جب کہ مستحبات و فضائل کو آگے پہنچانا فرض ہے، خود عمل کرے تو اجر ہے نہ کر سکے تو مؤاخذہ نہیں، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( بَلِّغُوْا عَنِّيْ وَلَوْ آيَةً )) [بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب ما ذکر عن بني إسرائیل : ۳۴۶۱، عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللّٰہ عنھما ] ’’مجھ سے آگے پہنچا دو، خواہ ایک آیت ہو۔‘‘ اور فرمایا : (( فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ )) [بخاري، الحج، باب الخطبۃ أیام منًی : ۱۷۴۱، عن أبي بکرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’تو جو موجود ہے وہ اس تک پہنچا دے جو موجود نہیں، کیونکہ بہت سے لوگ جنھیں پہنچایا جائے، سننے والوں سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔‘‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاکید کے لیے دیکھیے سورۂ آلِ عمران (110،104)۔ 5۔ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ ....: ’’مَقَتَ يَمْقُتُ مَقْتًا‘‘ (ن) ’’ أَبْغَضَهُ بُغْضًا شَدِيْدًا ‘‘ ان آیات میں اس وعدے یا دعوے پر اللہ تعالیٰ نے اپنی شدید ناراضی کا اظہار کئی طرح سے فرمایا ہے جس پر عمل نہ کیا جائے۔ سب سے پہلے ڈانٹ اور ملامت کے لیے استفہام انکاری کے ساتھ فرمایا کہ ایمان لانے کے باوجود تم وہ کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں، پھر اس کام کی شناعت کے اظہار کے لیے اس کی ضمیر لانے کے بجائے دوسری آیت میں انھی الفاظ کو دہرایا ہے، چنانچہ پہلے فرمایا : ﴿ لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ﴾ پھر فرمایا : ﴿ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ﴾ پھر ناراضی کی شدت کے اظہار کے لیے ’’ كَبُرَ ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا، جس کا معنی شدید بغض ہے اور اس کے ساتھ ’’ مَقْتًا ‘‘ فرمایا کہ یہ شدید بغض ’’کبیر‘‘ بھی ہے۔ پھر ’’ عِنْدَ اللّٰهِ ‘‘ کا لفظ ہے کہ یہ شدید بغض کسی عام شخص کا نہیں بلکہ اس عمل سے تم اللہ جل جلالہ کی شدید ناراضی کا نشانہ بن رہے ہو۔