بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے
سورۂ حشر میں منافقین کی کفار اہل کتاب کے ساتھ دوستی اور اس کے برے انجام کا بیان تھا، اس سورت میں مشرکین کے ساتھ دوستی سے منع فرمایا، خصوصاً ان مہاجرین کو جن کے بیوی بچے یا عزیز مکہ میں رہ گئے تھے اور وہ اس خیال سے مشرکین سے تعلق قائم رکھنا چاہتے تھے کہ مشرکین اس وجہ سے ان کے بیوی بچوں اور عزیزوں کا خیال رکھیں گے۔ ۶ ہجری میں حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفارِ قریش کے درمیان دس سال کے لیے صلح کا جو معاہدہ ہوا اس کی ایک شق یہ تھی کہ جو قبائل چاہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف بن جائیں اور جو چاہیں کفارِ قریش کے حلیف بن جائیں اور کوئی فریق دوسرے فریق کے حلیف پر نہ حملہ کرے اور نہ حملہ کرنے والوں کی مدد کرے۔ چنانچہ مکہ کے قریب رہنے والے قبائل میں سے بنو بکر قریش کے حلیف بن گئے اور بنو خزاعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف بن گئے۔ ابھی معاہدے کو تقریباً ڈیڑھ سال ہی گزرا تھا کہ بنو بکر نے مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کر دیا۔ قریش نے آدمیوں اور اسلحہ سے ان کی مدد کی، وہ بھاگ کر حرم میں آئے تو انھوں نے وہاں بھی انھیں نہیں چھوڑا بلکہ قتل کر دیا۔ بنو خزاعہ کا ایک وفد فریاد لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ پہنچا۔ یہ قریش کی صریح عہد شکنی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سزا دینے اور مکہ پر حملہ کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا اور اس کے لیے خفیہ طور پر تیاری شروع کر دی۔ مقصد یہ تھا کہ اچانک حملے میں کفار مزاحمت نہیں کر سکیں گے اور کشت و خون کی نوبت نہیں آئے گی۔ مسلمانوں کی قیمتی جانیں بھی محفوظ رہیں گی اور کفار میں سے جن کی قسمت میں سعادت لکھی ہو گی مسلمان ہو سکیں گے اور آگے چل کر اسلام کی سربلندی میں حصہ لے سکیں گے۔ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ایک مہاجر صحابی تھے اور بدری تھے، مکہ میں ان کی اولاد اور مال اسباب تھا۔ وہ اصلاً قریش میں سے نہیں تھے، بلکہ ان کے حلیف تھے۔ انھوں نے قریش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کی اطلاع دینے کے لیے ان کی طرف ایک خط لکھا اور ایک عورت کے ہاتھ بھیج دیا۔ صحیح بخاری میں اس کی تفصیل آئی ہے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے، زبیر اور مقداد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا کہ تم چلتے جاؤ یہاں تک روضۂ خاخ (خاخ نامی باغ) تک جا پہنچو، وہاں اونٹنی پر سوار ایک عورت ہوگی، اس سے خط لے آؤ۔ چنانچہ ہم گھوڑے دوڑاتے ہوئے روانہ ہو گئے، یہاں تک کہ ہم اس باغ کے پاس جا پہنچے۔ دیکھا تو اونٹنی پر سوار وہ عورت وہاں تھی، ہم نے اس سے کہا : ’’خط نکال۔‘‘ اس نے کہا : ’’میرے پاس کوئی خط نہیں۔‘‘ ہم نے کہا : ’’تم ہر صورت خط نکالو گی یا ہم تمھارے کپڑے اتاریں گے۔‘‘ چنانچہ اس نے وہ خط اپنی چوٹی سے نکال کے دے دیا۔ ہم اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ دیکھا تو اس میں لکھا تھا کہ یہ خط حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ کے کچھ لوگوں کے نام ہے، جو مشرکین میں سے تھے۔ اس میں انھوں نے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض امور کی خبر دی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَا حَاطِبُ! مَا هٰذَا ؟ )) ’’حاطب! یہ کیا ہے؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! مجھ پر جلدی نہ کریں، میں ایسا آدمی تھا جو قریش کے ساتھ جڑا ہوا تھا، ان کا حلیف تھا، اصلاً ان میں سے نہیں تھا اور آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں ان کی وہاں کئی قرابتیں ہیں، جن کے ذریعے سے وہ اپنے اہل و عیال اور اموال کی حفاظت رکھتے ہیں۔ تو میں نے چاہا کہ جب میرا ان سے کوئی نسبی رشتہ نہیں تو میں ان پر ایک احسان کردوں جس کی وجہ سے وہ میرے گھر والوں کی حفاظت رکھیں۔ میں نے یہ کام نہ اپنے دین سے مرتد ہونے کی وجہ سے کیا ہے اور نہ ہی اسلام لانے کے بعد کفر کو پسند کرنے کی وجہ سے کیا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكُمْ )) ’’سن لو! اس نے یقیناً تم سے سچ کہا ہے۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّ اللّٰهَ اطَّلَعَ عَلٰی مَنْ شَهِدَ بَدْرًا قَالَ اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ )) ’’یہ تو بدر میں شریک ہوا ہے اور تجھے کیا معلوم شاید اللہ نے بدر میں شریک ہونے والوں کو جھانک کر کہا ہو کہ تم جو چاہو کرو، کیونکہ میں نے تمھیں بخش دیا ہے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرما دی : ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ.... فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيْلِ ﴾’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ.... تو یقیناً وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔‘‘ [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الفتح : ۴۲۷۴ ]