سورة الحشر - آیت 23

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود (١٧) نہیں ہے، وہ شہنشاہ ہے، ہر عیب سے پاک ہے، سلامتی دینے والا ہے، امن و سکون عطا کرنے والا ہے، سب کا نگہبان ہے، زبردست ہے، ہر چیز پر غالب ہے، شان کبریائی والا ہے، اللہ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

هُوَ اللّٰهُ الَّذِيْ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ : مزید صفات کے بیان کے لیے یہ جملہ دوبارہ ذکر فرمایا۔ تکرار سے مقصود اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک ’’ اللّٰهُ ‘‘ کی عظمت اور اس کی وحدانیت کا خاص اہتمام ہے۔ اَلْمَلِكُ: یہ دوسری خبر ہے، اس پر الف لام کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہ وہی ہے، کوئی اور نہیں، کیونکہ دوسرا کوئی اگر بادشاہ ہے تو چند لوگوں کا ہے، سب کا نہیں اور کچھ وقت کے لیے ہے، ہمیشہ کے لیے نہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ سب کا بادشاہ اور ہمیشہ کے لیے بادشاہ ہے، جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے : سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے حکمران ہے اک وہی باقی بتان آزری مزید دیکھیے سورۂ ملک کی پہلی آیت کی تفسیر۔ قرآن مجید میں اکیلے اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کا ذکر متعدد مقامات پر ہے، دیکھیے سورۂ روم (۲۶)، حدید (۵)، فرقان (۲)، یس (۸۳) اور آلِ عمران (۲۶)۔ الْقُدُّوْسُ: نہایت پاک۔ ’’ اَلْمَلِكُ ‘‘ کے بعد ’’ الْقُدُّوْسُ ‘‘ لانے میں ایک مناسبت یہ ہے کہ بادشاہ ہونے کے باوجود وہ دنیا کے حکمرانوں میں پائے جانے والے عیوب اور خامیوں سے بالکل پاک ہے۔ السَّلٰمُ : سراسر سلامتی ہے، یعنی سلامتی والا ہے۔ خود ہر آفت اور مصیبت سے سالم ہے اور سب کو سلامتی دینے والا اور محفوظ رکھنے والا ہے، دوسرے صاحبِ قوت لوگوں کی طرح ناحق تباہی و بربادی پھیلانے والا نہیں۔ ایک دعا میں یہ الفاظ ہیں : (( اَللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَ مِنْكَ السَّلَامُ )) [مسلم، المساجد، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ و بیان صفتہ : ۵۹۲ ] ’’اے اللہ! تو ہی سراسر سلامتی والا ہے اور تجھی سے سلامتی ملتی ہے۔‘‘ الْمُؤْمِنُ : امن دینے والا۔ جسے بھی امن ملتا ہے اسی سے ملتا ہے۔ الْمُهَيْمِنُ : نگران، نگہبان۔ تیسیر القرآن میں ہے : ’’ الْمُهَيْمِنُ ‘‘ کہتے ہیں : ’’ هَيْمَنَ الطَّائِرُ عَلٰي فِرَاخِهِ ‘‘ یعنی پرندے نے اپنے پر اپنے بچوں پر بچھا دیے، جیسے مرغی خطرے کے وقت اپنے چوزوں کو اپنے پروں کے نیچے چھپا لیتی ہے۔ لہٰذا ’’ الْمُهَيْمِنُ ‘‘ وہ ذات ہے جو (1)کسی کو خوف سے امن دے، (2) ہر وقت نگہبانی رکھے اور (3)کسی کا کوئی حق ضائع نہ ہونے دے۔ (منتہی الارب) الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ: ’’ الْجَبَّارُ ‘‘ اپنی مرضی منوانے والا، جو دوسرے کو اپنا کام کرنے پر مجبور کر دے۔ اللہ تعالیٰ ساری مخلوق پر جبار ہے، کیونکہ ان میں سے کسی کی جرأت نہیں کہ وہ اس سے جو کروانا چاہے وہ نہ کرے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ثُمَّ اسْتَوٰى اِلَى السَّمَآءِ وَ هِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَ لِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا قَالَتَا اَتَيْنَا طَآىِٕعِيْنَ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۱۱ ] ’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہو ا اور وہ ایک دھواں تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے کہا کہ آؤ خوشی سے یا مجبوری سے۔ دونوں نے کہا ہم خوشی سے آگئے۔‘‘کوئی اس حد سے تجاوز نہیں کر سکتا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر کر دی ہے، جیسا کہ انسان ایک ٹانگ تو اٹھا کر کھڑا ہو سکتا ہے مگر دونوں نہیں۔ جبر کا ایک معنی ٹوٹی ہوئی ہڈی جوڑنا اور نقصان پورا کرنا بھی ہے، یعنی وہی ہے جو ہر ایک کا نقصان پورا کرنے والا ہے۔ الْمُتَكَبِّرُ: اس کے دو مفہوم ہیں، ایک یہ کہ کوئی شخص فی الحقیقت بڑا نہ ہو مگر بڑا بننے کی کوشش کرے، خواہ وہ کوئی جن ہو یا انسان اور یہ صفت انتہائی مذموم ہے۔ دوسرا وہ جو فی الحقیقت بڑا ہو اور بڑا ہی ہو کر رہے اور یہ صفت صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے سزاوار ہے اور اس کے حق میں یہ ایک خوبی ہے جو دوسری کسی مخلوق میں نہیں پائی جاتی۔ کائنات کی باقی تمام چیزیں خواہ جاندار ہوں یا بے جان اس کے مقابلے میں چھوٹی اور حقیر ہیں۔ (تیسیر القرآن) سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ : یعنی یہ صفات دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں سے پاک ہے جنھیں مشرکین نے اس کا شریک بنا رکھا ہے۔