مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ
تم نے کھجور کے جو درخت کاٹے (٤) یا جن درختوں کو ان کی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا، تو یہ کام اللہ کے حکم سے ہوا، اور اس لئے ہوا تاکہ فاسقوں کو رسوا کرے
1۔ مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ ....: ’’ لِيْنَةٍ ‘‘ کے متعلق تین قول ہیں،ایک یہ کہ اس سے مراد کھجور کا درخت ہے۔ ابن جریر نے اسے ترجیح دی ہے۔ دوسرا قول یہ کہ ’’ لِيْنَةٍ ‘‘ برنی اور عجوہ کے سوا کھجور کا درخت ہے اور تیسرا قول یہ کہ ہر درخت کو ’’ لِيْنَةٍ ‘‘ کہا جاتا ہے، کیونکہ جب تک وہ زندہ ہے اس میں ’’ لَيُوْنَةٌ ‘‘ (نرمی) پائی جاتی ہے۔ (شنقیطی) بنونضیر کی بستیوں کے ساتھ ان کا ایک نہایت خوب صورت باغ تھا جسے ’’بویرہ‘‘ کہتے تھے، اس میں کھجوروں کے بہت سے درخت تھے۔ (یہ آج کل بھی بویرہ کے نام سے معروف ہے جو مسجد قبا کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ شنقیطی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا تو بعض ضرورتوں اور حکمتوں کے پیشِ نظر بعض درختوں کو کاٹنے کا اور بعض کو جلانے کا حکم دیا اور بعض اسی طرح رہنے دیے، جیسا کہ ابنِ عمر رضی اللہ عنھما نے فرمایا : (( حَرَّقَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيْرِ وَقَطَعَ وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ فَنَزَلَتْ : ﴿ مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآىِٕمَةً عَلٰى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ ﴾ )) [بخاري، المغازي، باب حدیث بني النضیر....: ۴۰۳۱ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلوا دیے اور کٹوا دیے۔ یہی بویرہ جگہ ہے (جس کا حسان رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا ہے، جیسا کہ آگے آئے گا) تو یہ آیت اتری : ﴿ مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآىِٕمَةً عَلٰى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ﴾ [ الحشر : ۵] ’’جو بھی کھجور کا درخت تم نے کاٹا یا اسے اس کی جڑوں پر کھڑا چھوڑا تو وہ اللہ کی اجازت سے تھا۔‘‘ درختوں کے کاٹنے اور جلانے پر یہود اور منافقین نے شور مچایا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) درختوں کو کاٹ کر فساد فی الارض کا ارتکاب کر رہے ہیں، جب کہ ان کا دعویٰ اصلاح کا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دلائی کہ تم نے جو بھی درخت کاٹا یا اسے اس کی جڑوں پر قائم رہنے دیا تو یہ سب کچھ اللہ کے اذن سے تھا، یعنی اگرچہ جنگ کے موقع پر عام حکم یہی ہے کہ درخت اور کھیت جلانے اور کاٹنے سے اجتناب کیا جائے، مگر اس موقع پر جو درخت جلائے گئے یا کاٹے گئے یا باقی رہنے دیے گئے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہوا، اس لیے مخالفین کی باتوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ 2۔ وَ لِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ : ’’ الْفٰسِقِيْنَ ‘‘ میں بنو نضیر کے علاوہ انھیں عہد توڑنے اور لڑائی کے لیے ابھارنے والے یہودی، مکہ کے مشرکین اور مدینہ کے منافقین سبھی شامل ہیں۔ یعنی کھجوروں کے درخت کاٹنے، جلانے یا باقی رکھنے کا عمل دوسری بہت سی مصلحتوں کے علاوہ اس لیے بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ فاسقوں کو ذلیل کرے۔ کاٹنے اور جلانے میں ان کی تذلیل تو ظاہر ہے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی زندگی بھر کی کمائی کو جلایا اور کاٹا گیا مگر وہ کاٹنے اور جلانے والوں کا ہاتھ نہ روک سکے۔ اس میں بنو نضیر، دوسرے یہودیوں، منافقینِ مدینہ اور مشرکینِ مکہ سب کی تذلیل تھی کہ انھوں نے یہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا اور اُف تک نہ کر سکے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاعر حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مشرکینِ مکہ پر طنز وتشنیع کے تیر برساتے ہوئے کہا : وَهَانَ عَلٰي سَرَاةِ بَنِيْ لُؤَيٍّ حَرِيْقٌ بِالْبُوَيْرَةِ مُسْتَطِيْرُ ’’بنولؤ ی (قریش) کے سرداروں نے وہ آگ آسانی سے برداشت کر لی جو بویرہ کے مقام پر پھیل رہی تھی (یعنی انھیں اس پر کوئی غصہ آیا نہ غیرت اور نہ ہی وہ حسبِ وعدہ بنو نضیر کی مدد کو پہنچے)۔‘‘ [ بخاري، المغازي، باب حدیث بني النضیر....: ۴۰۳۲ ] اور جو درخت باقی رہے ان میں ان سب کی تذلیل یہ تھی کہ وہ مسلمانوں کے قبضے میں آئے اور کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ ان کے قبضے سے چھڑا سکیں۔ 3۔ ’’ وَ لِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ ‘‘ (اور تاکہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے) میں حرفِ عطف واؤ سے ظاہر ہے کہ اس سے پہلے کچھ عبارت محذوف ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ اذن اس لیے دیا تاکہ بنو نضیر کے محاصرے کے لیے راستہ صاف ہو جائے، ان کے لیے کوئی چھپاؤ باقی نہ رہے، محاصرے میں سختی پیدا کی جائے، انھیں قلعوں سے نکل کر میدان میں آ کر لڑنے پر ابھارا جائے اور تاکہ مسلمانوں کو عزت عطا فرمائے اور تاکہ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔ 4۔ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر جنگی ضرورت کا تقاضا ہو تو درختوں اور کھیتوں کو کاٹا، جلایا اور عمارتوں کو گرایا جا سکتا ہے، بلا ضرورت یہ کام جائز نہیں۔ 5۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے علاوہ اور احکام بھی دیے گئے، کیونکہ یہاں جس کے متعلق فرمایا کہ ’’وہ اللہ کے اذن سے تھا‘‘ وہ ’’اذن‘‘ قرآن میں نہیں بلکہ وحی خفی کے ذریعے سے دیا گیا ہے، جسے حدیث کہتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ وحیٔ الٰہی صرف قرآن تک محدود نہیں۔