يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اے ایمان والو ! جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجلسوں (٩) میں (دوسروں کو) جگہ دو، تو انہیں جگہ دیا کرو، اللہ تمہارے لئے کشادگی پیدا کرے گا، اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو، تو اٹھ جاؤ، اللہ تم میں سے ایمان والوں اور اہل علم کے درجات بلند کرے گا، اور اللہ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے
1۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِذَا قِيْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوْا ....: پچھلی آیات میں مجلس کے آداب میں سے سرگوشی سے ممانعت کا ادب بیان ہوا، اس آیت میں اس کے مزید کچھ آداب بیان ہوئے ہیں۔ ان آداب کی ضرورت اس لیے پڑی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ہر شخص آپ کے زیادہ سے زیادہ قریب رہنے کی خواہش رکھتا تھا، جس سے مجلس میں تنگی پیش آتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ ادب سکھایا کہ جب حاضرینِ مجلس کی سہولت کے لیے کہا جائے کہ کھل جاؤ، تاکہ سب لوگ آسانی سے کھلے ہو کر بیٹھ سکیں تو کھل جاؤ، صرف میر مجلس کے قرب کے پیش نظر ایک دوسرے کے اوپر چڑھ کر بیٹھے رہنے پر اصرار نہ کرو۔ اسی طرح اگر مجلس میں کچھ اور لوگ آجائیں اور ان کی جگہ بنانے کے لیے کھل جانے کے لیے کہا جائے تو کھل جاؤ اور دل میں تنگی محسوس نہ کرو۔ 2۔ يَفْسَحِ اللّٰهُ لَكُمْ: ’’ يَفْسَحِ ‘‘ فعل مضارع معلوم ہے جو ’’ تَفَسَّحُوْا ‘‘ امر کا جواب ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے، آگے ملانے کے لیے اسے کسرہ دیا گیا ہے، یعنی تم مجلس میں کشادگی کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمھارے لیے فراخی کر دے گا، اس فراخی میں سب سے پہلی فراخی تودل کی فراخی ہے کہ خوش دلی سے کھل جاؤ گے تو دلوں کی تنگی دور ہوگی اور ان میں بھائیوں کے لیے وسعت پیدا ہوگی۔ اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت کے ہر معاملے میں تمھیں فراخی عطا فرمائے گا، کیونکہ ہر عمل کا بدلا اسی جیسا ہوتا ہے، جیسا کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ بَنٰی مَسْجِدًا لِلّٰهِ بَنَی اللّٰهُ لَهُ فِي الْجَنَّةِ مِثْلَهُ )) [مسلم، المساجد، باب فضل بناء المساجد والحث علیھا: ۲۵ ؍۵۳۳۔ بخاري: ۴۵۰ ] ’’جو شخص اللہ کے لیے مسجد بنائے اللہ اس کے لیے اس کی مثل جنت میں (گھر) بنائے گا۔‘‘ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُّؤْمِنٍ كُرْبَةً مِّنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللّٰهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِّنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ يَسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللّٰهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللّٰهُ فِيْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِيْ عَوْنِ أَخِيْهِ )) [مسلم، الذکر، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر : ۲۶۹۹ ] ’’جو شخص کسی مومن سے دنیا کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور کرے اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور فرمائے گا۔ اور جو کسی تنگی والے پر آسانی کرے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا اور جو شخص کسی مسلم (کے عیبوں) پر پردہ ڈالے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس (کے عیبوں) پر پردہ ڈالے گا اور اللہ تعالیٰ بندے کی مدد میں ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے۔‘‘ 3۔ وَ اِذَا قِيْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا: ’’ نَشَزَ يَنْشِزُ نَشْزًا‘‘ (ض،ن) ’’اَلرَّجُلُ عَنْ مَّكَانِهٖ‘‘ آدمی کا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہونا۔ جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہو جاؤ تو اٹھ کھڑے ہو جاؤ، یعنی جب مجلس کا امیر یا مجلس کے منتظمین حاضرین میں سے کسی کے علم و فضل اور شرف و مرتبہ کے پیش نظر اسے امیر کے قریب لانے کے لیے کسی کو اس کی جگہ سے اٹھ جانے کے لیے کہیں تو اسے چاہیے کہ اٹھ جائے اور اپنے دل میں کوئی تنگی یا ملال نہ لائے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لِيَلِنِيْ مِنْكُمْ أُوْلُو الْأَحْلَامِ وَالنُّهٰی ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ )) [مسلم، الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف و إقامتہا ....: ۴۳۲ ] ’’تم میں سے میرے قریب وہ لوگ ہوں جو سمجھ اور عقل والے ہوں، پھر جو ان سے (سمجھ اور عقل میں) قریب ہوں۔‘‘ اسی طرح اگر امیر کسی شخص سے یا کچھ لوگوں سے مشورہ کرنے کے لیے یا ان کی بات سننے کے لیے کسی کو اس کی جگہ سے اٹھ جانے کے لیے کہے تو اسے کسی ملال کے بغیر اٹھ جانا چاہیے۔ یہ ادب اس لیے مقرر فرمایا کہ بعض اوقات عام سمجھ والے مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی وجہ سے یا منافقین اپنے خبثِ باطن کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ساری جگہ گھیر لیتے، پھر کوئی بزرگ صحابی مثلاً ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما وغیرہ آتے تو ان کے لیے جگہ نہ چھوڑتے اور اگر اٹھنے کے لیے کہا جاتا تو برا مناتے۔ ظاہر ہے اگر اس ادب کا خیال نہ رکھا جائے تو کسی امیر کی کوئی مجلس صحیح طریقے سے چل ہی نہیں سکتی۔ اسی طرح اگر امیر مجلس کو برخاست کر دے اور سب کو اٹھ جانے کے لیے کہے تو انھیں اٹھ جانا چاہیے اور اس میں اپنی توہین محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ 4۔ يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ....: ’’ يَرْفَعِ ‘‘ فعل مضارع ہے جو ’’ فَانْشُزُوْا ‘‘ امر کا جواب ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے، کسرہ اسے آگے ملانے کے لیے دیا گیا ہے۔ یعنی جب تم سے کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو جاؤ تو اٹھ کھڑے ہو جاؤ۔ جب تم اللہ کا حکم سمجھ کر تواضع اختیار کرو گے اور اٹھنے میں کسی طرح کی توہین یا کسرِ شان کا خیال دل میں نہیں لاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کو درجوں میں بلند کر دے گا جو ایمان لائے، کیونکہ ایمان کا تقاضا تواضع ہے اور ایمان اور کبر کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِيْ قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِّنْ كِبْرٍ وَلاَ يَدْخُلُ النَّارَ مَنْ كَانَ فِيْ قَلْبِهِ مِثْقَالُ خَرْدَلٍ مِّنْ إِيْمَانٍ )) [أبو داؤد، اللباس، باب ما جاء في الکبر : ۴۰۹۱، وقال الألباني صحیح ] ’’وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر کبر ہوگا اور وہ شخص آگ میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے برابر ایمان ہوگا۔‘‘ 5۔ يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ: بظاہر یہاں الفاظ یہ ہونے چاہییں تھے کہ ’’يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ نَشَزُوْا مِنْكُمْ‘‘ یعنی ’’(جب تمھیں کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو جاؤ تو اٹھ کھڑے ہو جاؤ) تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اٹھ کھڑے ہوں گے درجات میں بلند کر دے گا‘‘ مگر اللہ تعالیٰ نے منافقین کو نکالنے کے لیے ’’ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ‘‘ کی قید لگا دی کہ منافقین اس حکم پر اٹھ کھڑے ہوں تب بھی انھیں رفع درجات کا شرف حاصل نہیں ہو سکتا، ان کا ٹھکانا ’’الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ‘‘ (آگ کا سب سے نچلا درجہ) ہی ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء ( ۱۴۵)۔ 6۔ وَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ: یہ ’’ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ‘‘ ہی کی صفت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ’’ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ‘‘ قرار دیا ہے۔ دیکھیے سورۂ محمد (۱۶) کی تفسیر اور ایمان کا ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ بھی علم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا، جیسا کہ فرمایا: ﴿ فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ﴾ [ محمد : ۱۹ ] ’’پس جان لے کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ہاں علم اور ایمان کے مدارج میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ اسی طرح جنت میں علم کے لحاظ سے اہلِ ایمان کے مدارج میں بلندی ہوگی۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَ رَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا فَإِنَّ مَنْزِلَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَؤُهَا )) [أبو داؤد، الوتر، باب کیف یستحب الترتیل في القراء ۃ : ۱۴۶۴، وقال الألباني حسن صحیح ] ’’قرآن والے شخص سے کہا جائے گا پڑھ اور چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا، تیرا مقام آخری آیت کے پاس ہے جسے تو پڑھے گا۔ ‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰهَ يَرْفَعُ بِهٰذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِيْنَ )) [مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ....: ۸۱۷، عن عمر رضی اللّٰہ عنہ ] یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا درجات میں بلندی عطا فرمائے گا، وہ جس قدر ایمان اور علم میں زیادہ ہوں گے اتنے ہی درجوں میں بلند ہوں گے۔ اس آیت سے علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ 7۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’’ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ‘‘ اور ’’ وَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ‘‘ کو عطف کے ساتھ ذکر فرمایا ہے، جو مغایرت کے لیے ہوتا ہے، تو یہ دونوں ایک ہی موصوف کی صفت کیسے ہو سکتے ہیں؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں موصوف میں مغایرت مراد نہیں صفات میں مغایرت مراد ہے اور بعض اوقات ایک ہی موصوف کی صفات اس طرح بھی لائی جاتی ہیں، جیسا کہ سورۂ اعلیٰ میں ہے: ﴿ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى (1) الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى (2) وَ الَّذِيْ قَدَّرَ فَهَدٰى (3) وَ الَّذِيْ اَخْرَجَ الْمَرْعٰى﴾ [ الأعلٰی : ۱ تا ۴ ] ’’اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو سب سے بلند ہے۔ وہ جس نے پیدا کیا، پس درست بنایا۔ اور وہ جس نے اندازہ ٹھہرایا، پھر ہدایت کی۔ اور وہ جس نے چارا اُگایا۔‘‘ 8۔ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ: یعنی اللہ تعالیٰ تمھارے تمام اعمال سے پوری طرح باخبر ہے کہ تم اٹھنے کا حکم ملنے پر خوش دلی سے اٹھ کھڑے ہوتے ہو یا نفاق اور کبر کی وجہ سے مجبوراً اٹھتے ہو اور وہ تمھیں تمھارے عمل کے مطابق ہی جزا دے گا۔