لِّئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّن فَضْلِ اللَّهِ ۙ وَأَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
تاکہ اہل کتاب جان لیں (٢٧) کہ وہ اللہ کے فضل وکرم کے کسی حصہ میں تصرف کرنے میں کوئی قدرت نہیں کی، اور یہ کہ فضل و کرم صرف اللہ کے ہاتھوں میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ فضل عظیم والا ہے
1۔ لِئَلَّا يَعْلَمَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَلَّا يَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَيْءٍ مِّنْ فَضْلِ اللّٰهِ: یعنی اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنی رحمت میں سے دو حصے اور عظیم نور دینے کی بشارت اس لیے دی ہے تاکہ اہلِ کتاب تمھارے متعلق یہ نہ جانیں کہ یہ مسلمان اللہ کے فضل میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ 2۔ وَ اَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللّٰهِ ....: سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ اس سے پہلے ’’وَلِيَعْلَمُوْا‘‘ (اور تاکہ وہ جان لیں) محذوف ہے، یعنی اور تاکہ وہ جان لیں کہ فضل اہلِ کتاب یا کسی اور کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی مشیت سے اس آخری نبی پر اخلاص کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنے خاص فضل کے لیے منتخب فرمایا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔ 3۔ ابن جریر اور دوسرے کئی مفسرین نے فرمایا کہ’’ لِئَلَّا يَعْلَمَ اَهْلُ الْكِتٰبِ ‘‘ کا معنی ’’ لِيَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ‘‘ ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنی رحمت میں سے دو حصے اور نورِ عظیم کی بشارت اس لیے دی ہے تاکہ اہل کتاب (جو اپنے سوا کسی کو اللہ تعالیٰ کا فضل عطا ہونے کے قائل ہی نہیں) جان لیں کہ وہ اللہ کے فضل میں سے کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے اور یہ کہ فضل سارے کا سارا اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔ اس تفسیر پر یہ اعتراض ہے کہ اس میں ’’لَا‘‘ کو زائد مانا گیا ہے، حالانکہ اللہ کے کلام میں کوئی لفظ زائد کیسے ہو سکتا ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں ’’لَا‘‘ زائد ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بے کار ہے، بلکہ اسے بعد میں آنے والے ’’ اَلَّا يَقْدِرُوْنَ ‘‘ میں موجود نفی کی تاکید کے لیے لایا گیا ہے، جیسا کہ ایک جگہ فرمایا : ﴿ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ﴾ [صٓ : ۷۵ ] ’’تجھے کس چیز نے روکا کہ تو سجدہ کرے؟‘‘ اور دوسری جگہ فرمایا : ﴿ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ﴾ [ الأعراف : ۱۲ ] ’’تجھے کس چیز نے روکا کہ تو سجدہ نہیں کرتا؟‘‘ یہاں ’’ اَلَّا تَسْجُدَ‘‘ میں ’’لاَ‘‘ اس نفی کی تاکید کے لیے ہے جو ’’ مَنَعَكَ ‘‘ کے ضمن میں موجود ہے۔ ’’ لِئَلَّا يَعْلَمَ اَهْلُ الْكِتٰبِ ‘‘ کی یہ تفسیر بھی درست ہے اور بہت عمدہ ہے۔