سورة الحديد - آیت 22

مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جو مصیبت (٢١) بھی زمین پر نازل ہوتی ہے یا تمہاری جان پر تو وہ لوح محفوظ میں، قبل اس کے کہ ہم اسے پیدا کریں، لکھی ہوئی ہے، بے شک ایسا کرنا اللہ کے لئے آسان ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ....:’’ اَصَابَ‘‘ کا مفعول بہ محذوف ہے : ’’ أَيْ مَا أَصَابَكُمْ أَوْ مَا أَصَابَ أَحَدًا مِنْ مُّصِيْبَةٍ.....‘‘ ’’یعنی تمھیں یا کسی کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے خواہ زمین میں ہو یا تمھاری جانوں میں....۔‘‘ سورت کی ابتدا سے جہاد میں مال و جان خرچ کرنے کی تاکید آرہی ہے، چونکہ اس راہ میں کئی طرح کی جسمانی و ذہنی اور مالی و جانی مصیبتیں پیش آتی ہیں، مثلاً بھوک، پیاس، فقر، خوف، غم، تھکاوٹ، بیماری، زخم، چوٹ، گرفتاری اور قتل وغیرہ، اس لیے آدمی جہاد پر جانے سے گریز کرتا ہے اور اپنے آپ کو ان مصیبتوں سے بچانے کی کوشش کرتا ہے اور اگر جہاد کے لیے چلا جائے تو ان مصائب کے پیش آنے پر پریشان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو مالی یا جانی مصیبت تمھیں پیش آنی ہے وہ ہر حال میں آکر رہے گی، تم اس سے بچنے کی جتنی بھی کوشش کر لو اس سے بھاگ نہیں سکتے۔ ہر آنے والی مصیبت یا راحت اللہ تعالیٰ نے اس کے پیدا کرنے اور تمھاری جانوں کو پیدا کرنے، بلکہ زمین کو پیدا کرنے سے بھی پہلے ایک کتاب میں لکھ دی ہے، کسی کی طاقت نہیں کہ اس لکھے ہوئے کو مٹا دے یا بدل دے۔مزید دیکھیے سورۂ قمر (۴۹) اور سورۂ توبہ (۵۱) کی تفسیر۔ فِي الْاَرْضِ: اس سے زمین پر آنے والی عام مصیبتیں مراد ہیں، مثلاً قحط، طوفان، سیلاب، زلزلے اور وبائیں وغیرہ، جن سے انسان متاثر ہوتا ہے۔ وَ لَا فِيْ اَنْفُسِكُمْ: اس سے وہ مصیبتیں مراد ہیں جو انسان کی ذات پر آتی ہیں، مثلاً بیماری، زخم، بھوک، پیاس، گرفتاری، فقر، خوف، غم، پیاروں کی موت اور اپنی موت وغیرہ۔ ’’ وَ لَا فِيْ اَنْفُسِكُمْ ‘‘ میں ’’ لَا ‘‘ کو دوبارہ ان مصیبتوں کی اہمیت کی وجہ سے ذکر فرمایا، کیونکہ آدمی اپنی جان پر آنے والی مصیبتوں سے زیادہ متاثر ہوتا ہے، دوسروں پر آنے والی مصیبتوں سے وہ ذہنی طور پر متاثر ہوتا ہے، حسی طور پر نہیں۔ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا: ’’ بَرَأَ يَبْرَأُ بَرْأً وَ بُرُوْأً ‘‘ (ف) پیدا کرنا۔ ’’هَا‘‘ ضمیر ’’ مُصِيْبَةٍ ‘‘ کی طرف بھی جا سکتی ہے، ’’ الْاَرْضِ‘‘ کی طرف بھی اور ’’ اَنْفُسِكُمْ ‘‘ کی طرف بھی۔ یہ کلام الٰہی کی بلاغت ہے کہ تینوں مراد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مصیبت کو اس مصیبت کے پیدا کرنے سے پہلے، انسان کے پیدا کرنے سے پہلے اور زمین کے پیدا کرنے سے بھی پہلے لکھ دیا ہے۔ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيْرٌ: یعنی انسان کو چونکہ آئندہ کا کچھ علم نہیں، اس لیے اس کے لیے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ آئندہ کی بات پہلے لکھ دے، مگر اللہ تعالیٰ کے لیے یہ بالکل ہی معمولی بات ہے، کیونکہ وہ گزشتہ اور موجودہ کی طرح آئندہ کی ہر بات کو بھی جانتا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ قمر (۴۹) کی تفسیر۔