سورة الحديد - آیت 21

سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

لوگو ! تم اپنے رب کی مغفرت (20) کی طرف دوڑو، اور اس جنت کی طرف جس کی کشادگی آسمان وزمین کی کشادگی کی مانند ہے، ان کے لئے تیاری کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے جسے وہ چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ عظیم فضل والا ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

سَابِقُوْا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ: ’’سَابِقُوْا‘‘ ’’سَبَقَ يَسْبِقُ سَبْقًا‘‘ (ض،ن) سے باب مفاعلہ کا امر حاضر ہے۔ اس میں مقابلے کا مفہوم پایا جاتا ہے، یعنی ایک دوسرے کے مقابلے میں ایسے اعمال کی طرف آگے بڑھو جن سے تم مغفرت اور جنت کے مستحق بن سکو۔ مثلاً میدان قتال کی پہلی صف میں ہونا، امام کے ساتھ تکبیر تحریمہ میں شامل ہونا اور اللہ کی راہ میں دوسروں سے بڑھ چڑھ کر خرچ کرنا وغیرہ۔ یہ آیت سورۂ آل عمران کی آیت (۱۳۳) سے ملتی جلتی ہے، اس کی تفسیر پر بھی نظر ڈال لیں۔ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ: ’’ السَّمَآءِ ‘‘ کا لفظ یہاں بطور جنس استعمال ہوا ہے، مراد تمام آسمان ہیں۔ دلیل اس کی سورۂ آل عمران کی یہ آیت ہے : ﴿ وَ سَارِعُوْا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ﴾ [آل عمران : ۱۳۳] ’’اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دوڑو اپنے رب کی جانب سے بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین (کے برابر)ہے۔ ‘‘ اُعِدَّتْ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ: یہاں اتنا ہی ذکر ہے کہ جنت ایمان والوں کے لیے تیار کی گئی ہے، جبکہ سورۂ آل عمران (۱۳۳ تا ۱۳۵ )میں ان ایما ن والوں کے چند اعمال کا بھی ذکر ہے جن کی وجہ سے وہ اللہ کے فضل کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ ان میں پہلا عمل خوشی اور تکلیف میں خرچ کرنا ہے، جس کا ذکر یہاں ’’ اَنْفَقُوْا ‘‘ میں گزر چکا ہے۔ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ ....: اس سے معلوم ہوا کہ جنت میں داخلہ محض اللہ کے فضل کے ساتھ ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کسی کا کوئی حق واجب نہیں اور انسان جتنے بھی عمل کر لے وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک نعمت کا بھی بدل نہیں ہو سکتے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: (( لَنْ يُّدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُهُ الْجَنَّةَ، قَالُوْا وَلاَ أَنْتَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ !؟ قَالَ لاَ، وَلاَ أَنَا إِلاَّ أَنْ يَّتَغَمَّدَنِيَ اللّٰهُ بِفَضْلٍ وَ رَحْمَةٍ )) [بخاري، المرضٰی، باب تمنی المریض الموت : ۵۶۷۳] ’’ کسی بھی شخص کو اس کا عمل جنت میں ہرگز داخل نہیں کرے گا۔ ‘‘ لوگوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! آپ کو بھی نہیں؟‘‘ فرمایا : ’’نہیں، مجھے بھی نہیں، الا یہ کہ اللہ مجھے فضل اور رحمت سے ڈھانپ لے۔‘‘ البتہ اعمال صالحہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے حصول کا سبب بنتے ہیں، دیکھیے سورۂ اعراف(۴۳) کی تفسیر۔