إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَأَقْرَضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ
) بے شک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں (١٧) اور جو لوگ اللہ کو اچھا قرض دیتے ہیں، ان کو کئی گنابڑھا کردیا جائے گا، اور ان کے لئے بہت عمدہ اجر (یعنی جنت) ہے
1۔ اِنَّ الْمُصَّدِّقِيْنَ وَ الْمُصَّدِّقٰتِ: ’’ الْمُصَّدِّقِيْنَ ‘‘ اصل میں باب تفعّل سے ’’ اَلْمُتَصَدِّقِيْنَ ‘‘ ہے، تاء کو صاد سے بدل کر صاد میں ادغام کر دیا۔ صاد کی تشدید سے صدقے میں مبالغے اور کثرت کا اظہار مقصود ہے، یعنی بہت صدقہ کرنے والے مرد اور بہت صدقہ کرنے والی عورتیں۔ ’’ الْمُزَّمِّلُ ‘‘ اور’’ الْمُدَّثِّرُ ‘‘ میں بھی ایسے ہی ہے۔ 2۔ وَ اَقْرَضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا ....: یہاں ایک سوال ہے کہ ’’ اَقْرَضُوا اللّٰهَ ‘‘ فعل کا ’’ الْمُصَّدِّقِيْنَ ‘‘ اسم فاعل پر عطف کس طرح ڈالا گیا ہے؟ اس کے جوابات میں سے ایک جواب یہ ہے کہ ’’ الْمُصَّدِّقِيْنَ ‘‘ دراصل ’’اَلَّذِيْنَ تَصَدَّقُوْا‘‘ کے معنی میں ہے، اس لیے ’’ اَقْرَضُوا ‘‘ کا عطف ’’تَصَدَّقُوْا‘‘ پر ہے جو ’’مُتَصَدِّقِيْنَ‘‘ کے ضمن میں موجود ہے۔ ’’مُتَصَدِّقِيْنَ‘‘ کو اسم فاعل کی صورت میں دوام کے اظہار کے لیے لایا گیا ہے۔ اس آیت کی تفسیر کے لیے اسی سورت کی آیت (۱۱)کی تفسیر دیکھیے۔ البتہ یہاں ’’ الْمُصَّدِّقِيْنَ ‘‘ کے لفظ میں صدقے کی کثرت اور اس پر دوام کی بات اس سے زائد ہے۔