آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِ ۖ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَأَنفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ
لوگو ! اللہ اور اس کے رسول پر ایمان (٧) لے آؤ، اور اس مال میں سے خرچ کرو، جس کا اس نے تمہیں وارث بنایا ہے، پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے خرچ کیا، ان کے لئے بڑا اجر ہے
1۔ اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: سورت کے شروع سے یہاں تک اس حقیقت کے اعلان کے بعد کہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز نے اللہ کا (ہر عیب اور کمی سے) پاک ہونا بیان کیا ہے، اللہ تعالیٰ کی دس سے زیادہ صفات بیان ہوئی ہیں جو یہ ہیں : ’’ الْعَزِيْزُ ، الْحَكِيْمُ ، لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ، يُحْيٖ وَ يُمِيْتُ، وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ، هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ ، وَ هُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ، يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَ يُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ‘‘ ان صفات کے بیان کے بعد اس بات کی دعوت دی ہے کہ ان صفات کے مالک اللہ تعالیٰ پر اور اس کا پیغام لے کر آنے والے پر ایمان لاؤ۔ اس کے مخاطب اگرچہ کفار بھی ہیں، مگر بعد میں پورے سلسلۂ کلام سے ظاہر ہے کہ یہاں سے خطاب ان مسلمانوں کو ہے جو ایمان لا چکے تھے، مگر ایمان کے تقاضے پورے کرنے میں کوتاہی کر رہے تھے اور جہاد فی سبیل اللہ میں جان و مال کی قربانی سے گریز کر رہے تھے۔ یہ وہی بات ہے جو سورۂ نساء کی آیت (۱۳۶) : ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ﴾ (اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر)میں بیان ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے ایمان میں پختگی پیدا کرو اور اس کے تقاضوں پر عمل کرو، جن میں سے ایک بہت بڑا تقاضا اس کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ 2۔ وَ اَنْفِقُوْا: یہاں خرچ کرنے سے مراد عام بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا نہیں بلکہ جہاد فی سبیل اللہ اور مجاہدین و مہاجرین کی ضروریات کے لیے خرچ کرنا ہے۔ دلیل اس کی آگے آنے والی آیت (۱۰) ہے : ﴿وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور تمھیں کیا ہے تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔‘‘ اور ’’ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ‘‘ کا خاص اطلاق جہاد پر ہوتا ہے۔ دیکھیے سورۂ توبہ کی آیت (۶۰) کی تفسیر۔ 3۔ مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِيْنَ فِيْهِ: اس میں کئی طرح سے خرچ کرنے کی ترغیب ہے، ایک یہ کہ یہ مال تمھارا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہے جو اس نے تم سے پہلے لوگوں کو دیا تھا، اب اس نے تمھیں اس میں پہلوں کا جانشین بنا دیا ہے اور دیکھنا چاہتا ہے کہ تم اس کی مرضی کے مطابق خرچ کرتے ہو یا نہیں۔ (دیکھیے انعام : ۱۶۵) غلام کا یہ کام نہیں کہ مالک کے مال کو وہاں خرچ نہ کرے جہاں وہ اسے خرچ کرنے کے لیے کہتا ہے، بلکہ اپنی مرضی سے خرچ کرتا پھرے یا جمع کرنے لگ جائے۔ دوسرا یہ کہ پہلے لوگوں کی طرح یہ تمھارے پاس بھی نہیں رہے گا۔ اگر تم نے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر لیا تو یہ آخرت کے لیے تمھارا ذخیرہ بن جائے گا اور اگر تم نے خرچ نہ کیا تو کچھ اور لوگ اس میں تمھارے جانشین بن جائیں گے۔ پھر اگر انھوں نے اسے نیکی میں خرچ کیا تو وہ تم سے بہتر رہے کہ وہ مال جو تم نیکی میں خرچ نہ کر سکے انھوں نے کر دیا، تم محروم رہے اور اگر انھوں نے بدی میں خرچ کیا تو تمھاری دولت بھی ان کی بدی میں معاون ٹھہری۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَقُوْلُ الْعَبْدُ مَالِيْ مَالِيْ، إِنَّمَا لَهُ مِنْ مَّالِهِ ثَلَاثٌ، مَا أَكَلَ فَأَفْنٰی أَوْ لَبِسَ فَأَبْلٰی أَوْ أَعْطٰی فَاقْتَنٰی، وَمَا سِوَی ذٰلِكَ فَهُوَ ذَاهِبٌ وَتَارِكُهُ لِلنَّاسِ )) [مسلم، کتاب الزھد والرقائق، باب الدنیا سجن للمؤمن وجنۃ للکافر : ۲۹۵۹ ] ’’بندہ کہتا ہے میرا مال میرا مال، اس کے مال میں سے اس کی اپنی تو صرف تین چیزیں ہیں، جو اس نے کھایا اور فنا کر دیا، یا پہنا اور بوسیدہ کر دیا، یا دے دیا اور ذخیرہ بنا لیا اور جو اس کے علاوہ ہے تو یہ جانے والا ہے اور اسے لوگوں کے لیے چھوڑ جانے والا ہے۔‘‘ 4۔ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ اَنْفَقُوْا: یہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے خرچ کیا ان میں سب سے پہلے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لائے اور تبوک کے موقع پر صدقہ کے اعلان پر سارا مال لے آئے، ان میں عمر رضی اللہ عنہ بھی ہیں جو آدھا مال لے آئے اور عثمان رضی اللہ عنہ بھی اور وہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھی جنھوں نے خوش حالی میں بھی خرچ کیا اور تنگ دستی کے باوجود محنت مشقت کر کے بھی صدقہ کیا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ توبہ (۷۹) کی تفسیر۔ 5۔ لَهُمْ اَجْرٌ كَبِيْرٌ: ’’فی سبيل الله‘‘ خرچ کرنے والوں کی فضیلت کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۷۴) اور سورۂ انفال (۶۰)۔