هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اسی نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں (٤) میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی ہوگیا، وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتی ہے، اور جو اس سے نکلتی ہے، اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے، اور جو اس میں چڑھتا ہے، اور تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو، وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے، اور تم جو کچھ کرتے ہو اسے اللہ خوب دیکھ رہا ہوتا ہے
1۔ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ : اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۵۴) کی تفسیر۔ 2۔ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۵۴) اور سورۂ طٰہٰ (۵) کی تفسیر۔ اس آیت میں مذکور تمام جملے لانے کا مقصد بھی یہ ہے کہ جب یہ سب کچھ اللہ واحد نے کیا ہے تو پھر اس پر ایمان کیوں نہیں لاتے اور اس کے ساتھ شریک کیوں ٹھہراتے ہو، جیسا کہ یہ بات آگے آیت (۷) ’’ اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ ‘‘ میں صراحت کے ساتھ آرہی ہے۔ 3۔ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْاَرْضِ وَ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا ....: اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے تعلق رکھنے والی چیزوں میں سے ان چیزوں کے بجائے جو زمین پر موجود ہیں ان چیزوں کا ذکر فرمایا جو اس میں داخل ہوتی ہیں یا اس سے نکلتی ہیں۔ اسی طرح آسمان میں موجود چیزوں کے ذکرکے بجائے ان کا ذکر فرمایا جو اس سے اترتی ہیں یا اس کی طرف چڑھتی ہیں۔ کیونکہ جو زمین میں داخل ہونے والی اور اس سے نکلنے والی چیزوں کو جانتا ہے وہ اس کے اوپر موجود چیزوں کو بالاولیٰ جانتا ہے اور جو آسمان سے اترنے والی اور اس میں چڑھنے والی چیزوں کو جانتا ہے وہ فضا اور خلا میں موجود نظر آنے والی اور نظر نہ آنے والی چیزوں کو اور ستاروں کی گردش اور ان کے نظام کو بالاولیٰ جانتا ہے۔ زمین میں داخل ہونے والی چیزوں میں سے بارش کا پانی ہے جو زمین کی گہرائیوں میں داخل ہوتا ہے، نباتات کے بیج ہیں اور زمین میں دفن ہونے والے اجسام وغیرہ ہیں اور اس سے نکلنے والی چیزوں میں سے نباتات، معدنیات،گیسیں اور وہ جانور ہیں جو اپنی غاروں اور ٹھکانوں سے نکلتے ہیں۔ آسمان سے اترنے والی چیزوں میں سے بارش، برف، ہوائیں، اللہ تعالیٰ کے احکام، اس کے فرشتے اور اس کی رحمت وغیرہ ہیں اور اس میں چڑھنے والی چیزوں میں سے وہ چیزیں ہیں جو فضا کے طبقات میں بلند ہوتی ہیں۔ مثلاً سمندر وغیرہ سے اٹھنے والے آبی بخارات، مٹی اور ریت وغیرہ کی آندھیاں اور بگولے، فضا میں اڑنے والے پرندے، جسموں سے جدا ہو کر اوپر جانے والی ارواح اور عالم بالا سے معلومات چرانے کے لیے اوپر جانے والے شیاطین، بندوں کے اعمال اور فرشتے جو اترتے اور چڑھتے ہیں۔ [ التحریر والتنویر في سورۃ سبا ] 4۔ وَ هُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ: ’’اور وہ تمھارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو‘‘ اس جملے سے پہلے اسی آیت میں یہ جملہ گزر چکا ہے : ﴿ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ ﴾ ’’وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔‘‘ تو یہ آیت دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک عرش پر ہے اور وہ ہمارے ساتھ بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں بیک وقت کیسے درست ہو سکتی ہیں؟ اس معاملے میں بعض لوگوں نے ان دونوں کا انکار کر دیا اور یہ کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نہ عرش پر ہے اور نہ کسی اور جگہ ، بلکہ وہ لامکان ہے اور جو شخص یہ پوچھ بھی لے کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے وہ کافر ہوگیا، کیونکہ اس کے لیے مکان (جگہ) تسلیم کرنے سے اس کا اس جگہ کا محتاج ہونا لازم آتا ہے۔ ان نادانوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کا فتویٰ کس کس پر لگ رہا ہے اور نہ یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ خود فرما رہے ہیں : ﴿ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ﴾کہ پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔ پھر قیامت کے دن آٹھ فرشتوں کے عرش الٰہی کو اٹھائے ہونے کا ذکر سورۂ حاقہ میں موجود ہے، فرمایا : ﴿وَ يَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِيَةٌ﴾ [ الحاقۃ : ۱۷] ’’اور تیرے رب کا عرش اس دن آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔‘‘ اور قیامت کے دن فرشتوں کے عرش کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہونے کا ذکر سورۂ زمر میں موجود ہے، فرمایا : ﴿وَ تَرَى الْمَلٰٓىِٕكَةَ حَآفِّيْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ﴾ [ الزمر : ۷۵ ] ’’اور تو فرشتوں کو دیکھے گا عرش کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے۔‘‘ اور یہ سوال کرنا کہ اللہ کہاں ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ چنانچہ معاویہ بن حکم السُّلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’میری ایک لونڈی اُحد اور جوانیہ کی طرف میری بکریاں چراتی تھی، ایک دن میں نے دیکھا تو بھیڑیا اس کی بکریوں سے ایک بکری لے جا چکا تھا، میں بھی بنی آدم سے ہوں، مجھے اسی طرح غصہ آ جاتا ہے جیسے انھیں غصہ آتا ہے، تو میں نے اسے ایک تھپڑ مار دیا۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے اسے مجھ پر بہت بڑا (گناہ) قرار دیا، میں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! کیا میں اسے آزاد نہ کر دوں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اِئْتِنِيْ بِهَا )) : ’’اسے میرے پاس لاؤ۔‘‘ میں اسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا : (( أَيْنَ اللّٰهُ ؟ )) ’’اللہ کہاں ہے؟‘‘ اس نے کہا : (( فِي السَّمَاءِ ))’’آسمان میں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ أَنَا؟ )) ’’میں کون ہوں؟‘‘ اس نے کہا : (( أَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰهِ )) ’’آپ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ)) ’’اسے آزاد کر دو، کیونکہ یہ مومنہ ہے۔‘‘ [ مسلم، المساجد ومواضع الصلاۃ، باب تحریم الکلام في الصلاۃ....: ۵۳۷ ] خلاصہ یہ ہے کہ یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ لامکان ہے، قرآن و حدیث کا صریح انکار ہے اور یہ عقیدہ رکھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک عرش پر ہے اور وہ ہمارے ساتھ بھی ہے، مگر اس طرح سے جسے وہی جانتا ہے اور جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے عرش پر مستوی ہونے کے انکار کی ایک انتہا یہ تھی کہ وہ کسی جگہ بھی نہیں، جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہستی ہی کا انکار ہے۔ دوسری انتہا ان لوگوں نے اختیار کی جنھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر جگہ موجود ہے اور ہم جہاں بھی ہوں وہ ہمارے ساتھ اس طرح ہے جس طرح ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں، مگر یہ بات بھی غلط ہے، کیونکہ اسی آیت میں ’’ وَ هُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ ‘‘ (وہ تمھارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہو) سے پہلے’’ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ ‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر بھی موجود ہے۔ اب اگر ’’ وَ هُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ ‘‘ کا مطلب یہ لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر جگہ اس طرح ہمارے ساتھ ہے جس طرح ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں تو ایک ہی آیت کے دو جملے ایک دوسرے سے ٹکراتے اور متعارض ٹھہرتے ہیں، اس لیے ’’ وَ هُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ ‘‘ کا وہی مطلب درست ہو گا جو ’’ اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى ‘‘ کے خلاف نہ ہو اور کلام عرب کے بھی خلاف نہ ہو، کیونکہ جس طرح ’’ اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى ‘‘ پر ایمان لازم ہے اسی طرح ’’ وَ هُوَ مَعَكُمْ ‘‘ پر ایمان بھی لازم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کلام عرب میں معیت (ساتھ ہونے) کا معنی اگرچہ اس طرح ساتھ ہونا بھی ہے جس طرح ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں، مگر یہ لفظ مختلف مواقع کے لحاظ سے اس کے علاوہ معانی کے لیے بھی آتا ہے۔ چنانچہ معیت کا ایک معنی وہ ہے جو سورۂ بقرہ کی آیت (۱۵۳) : ﴿ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ﴾(بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) اور سورۂ توبہ کی آیت (۴۰) : ﴿ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ﴾ (غم نہ کر، یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے) میں ہے۔ ظاہر ہے ان آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے بے صبروں کے ساتھ نہیں، اسی طرح وہ ہجرت کے وقت غارِ ثور میں اور سارے سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا مشرکین کے ساتھ نہیں تھا۔ ’’ وَ هُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ ‘‘ میں یہ معنی بھی مراد نہیں، کیونکہ اس معنی میں معیت صرف اللہ کے مخلص بندوں کا نصیب ہے۔ معیت کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ ایک چیز دور ہونے کے باوجود ان چیزوں کے ساتھ بھی ہو جن سے وہ دور ہے۔ چنانچہ ’’ وَ هُوَ مَعَكُمْ‘‘ میں معیت سے یہی معنی مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش پر ہے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ بھی ہے۔ رہی یہ بات کہ کس طرح ہے؟ تو اس کی اصل اور پوری کیفیت وہی جانتا ہے۔ اگر مخلوق میں ایسا ہونا ممکن نہ بھی ہو تو اللہ تعالیٰ کو مخلوق پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس نے خود فرمایا ہے : ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ﴾ [ الشورٰی : ۱۱ ] ’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔‘‘ مگر مخلوق میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں کہ ایک چیز کسی ایک جگہ ہونے کے باوجود دوسری جگہ موجود لوگوں کے ساتھ ہو۔ اس کی ادنیٰ سی مثال سورج اور چاند ہیں کہ بلندی پر ہونے کے باوجود ہم جہاں جاتے ہیں وہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں، حالانکہ وہ زمین پر ہمارے اندر موجود نہیں ہوتے، مگر سب کہتے ہیں کہ رات میں سفر کرتا رہا اور چاند سارے سفر میں میرے ساتھ رہا۔ معیت کا یہ معنی معروف ہے اور اپنے مقام پر حقیقی معنی ہے۔ جب سورج اور چاند کا یہ معاملہ ہے تو اللہ تعالیٰ کی صفت تو ان کی صفت سے کہیں بلند ہے، چنانچہ وہ عرش پر ہونے کے باوجود ہمارے ساتھ ہے، خواہ ہم کہیں بھی ہوں، اگرچہ اپنی صفت ’’ الْبَاطِنُ ‘‘ کی وجہ سے اور حجاب میں ہونے کی وجہ سے ہمیں نظر نہیں آتا۔ قیامت کے دن جب وہ اہلِ جنت کو اپنے دیدار کی نعمت سے سرفراز فرمانے کا ارادہ کرے گا اور اپنا حجاب کھولے گا تو تمام جنتی اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے کسی تکلیف کے بغیر اور کسی قسم کے ہجوم یا بھیڑ کے بغیر اسے دیکھیں گے اور یہ مثال خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے کہا : (( يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ! هَلْ نَرٰی رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ تُضَارُّوْنَ فِي الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ؟ قَالُوْا لاَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ! قَالَ فَهَلْ تُضَارُّوْنَ فِي الشَّمْسِ لَيْسَ دُوْنَهَا سَحَابٌ ؟ قَالُوْا لاَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ! قَالَ فَإِنَّكُمْ تَرَوْنَهُ كَذٰلِكَ )) [بخاري، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿ وجوہ یومئذ....﴾ : ۷۴۳۷ ] ’’یا رسول اللہ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا تم چودھویں کی رات کو چاند دیکھنے میں کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’نہیں اے اللہ کے رسول!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تو کیا تم سورج کو دیکھنے میں کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو جس کے سامنے کوئی بادل نہ ہو؟‘‘ لوگوں نے کہا : ’’نہیں یا رسول اللہ!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تو تم اسے اسی طرح دیکھو گے۔‘‘ یہاں شیخ محمد بن صالح بن عثیمین رحمہ اللہ کی تالیف ’’القواعد المثلٰي في صفات اللّٰه وأسماء ه الحسنٰي‘‘ ﴿اَلْمِثَالُ الْخَامِسُ وَالسَّادِسُ﴾ سے ان کی ایک تحریر کا ترجمہ لکھا جاتا ہے، وہ لکھتے ہیں : ’’دوسری وجہ یہ ہے کہ ’’معیت‘‘ کے معنی کی حقیقت ’’عُلُوّ‘‘ کے مناقض اور خلاف نہیں، کیونکہ دونوں کا جمع ہونا مخلوق کے حق میں ممکن ہے (کہ ایک چیز بلندی پر بھی ہو اور ساتھ بھی ہو) کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ہم چلتے رہے اور چاند بھی ہمارے ساتھ تھااور اسے تناقض نہیں سمجھا جاتا اور نہ کوئی اس سے یہ سمجھتا ہے کہ چاند زمین پر اتر آیا ہے۔ تو جب یہ مخلوق کے حق میں ممکن ہے تو خالق کے حق میں تو بالاولیٰ ممکن ہے، جو اپنے علو کے ساتھ ہر چیز کو محیط بھی ہے، کیونکہ معیت کی حقیقت کے لیے ضروری نہیں کہ دونوں ایک جگہ اکٹھے ہوں۔ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ’’ الفتوي الحموية (ص ۱۰۳ )‘‘ (دیکھیے ابن القاسم کے مرتب کردہ ’’مجموع الفتاویٰ ‘‘کی جلد پنجم) میں اسی وجہ کی طرف اشارہ کیا ہے، چنانچہ انھوں نے لکھا ہے : ’’یہ اس لیے کہ لغت میں جب لفظ ’’مَعَ‘‘ کسی قید کے بغیر بولا جاتا ہے تو اس کا معنی لغت میں مطلق ساتھ ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا، پھر جب اسے کسی خاص معنی کے ساتھ مقید کیا جائے تو اس معنی میں ساتھ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ہم چلتے رہے اور چاند یا ستارہ ہمارے ساتھ تھا اور کہا جاتا ہے کہ فلاں سامان میرے ساتھ ہے، کیونکہ وہ تمھارے پاس ہوتا ہے، خواہ وہ تمھارے سر کے اوپر ہو۔ سو اللہ تعالیٰ حقیقت میں اپنی مخلوق کے ساتھ ہے اور حقیقت میں اپنے عرش پر بھی ہے۔‘‘ 5۔ سلف صالحین میں سے بہت سے اہلِ علم نے ’’ وَ هُوَ مَعَكُمْ ‘‘ کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش پر ہے اور وہ اپنے علم، رؤیت اور قدرت کے ساتھ ہمارے ساتھ ہے اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ زیر تفسیر آیت میں ’’ وَ هُوَ مَعَكُمْ ‘‘ سے پہلے ہر چیز کے علم کا ذکر ہے اور بعد میں ہر چیز کو دیکھنے کا۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش پر ہے اور وہ ہمارے ساتھ بھی ہے ہم جہاں بھی ہوں، مگر وہ زمین پر اپنی مخلوق کے ساتھ اس طرح نہیں جس طرح ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور اس میں بھی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا، اسے دیکھنے والا اور اس پر پوری قدرت اور تصرف رکھنے والا ہے۔ یہ تمام صفات حسنیٰ اس کے لیے ثابت ہیں، مگر معیت کا معنی علم یا قدرت نہیں بلکہ یہ بذات خود ایک صفت ہے جس کی اصل کیفیت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ اس لیے اس بات پر ایمان رکھنا لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش پر ہے اور وہ ہمارے ساتھ ہے ہم جہاں بھی ہوں۔ رہی یہ بات کہ کس طرح ہے؟ تو اس کی اصل کیفیت وہی جانتا ہے، چاند یا سورج کی مثالیں صرف سمجھانے کے لیے ہیں کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش کے اوپر ہے، وہ مخلوق کے ساتھ ہو سکتا ہے اور ہے۔ موجودہ زمانے میں اس کی ایک اور ادنیٰ سی مثال بجلی ہے کہ وہ اپنے اصل ٹھکانے میں ہونے کے باوجود ہزاروں میل دور تک موجود ہوتی ہے اور اس کا وجود سب محسوس کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی معیت اور مخلوق پر مؤثر ہونے کے لیے یہ مثال بھی نہایت ادنیٰ مثال ہے، جبکہ اللہ کی صفات بہت اعلیٰ ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿وَ لِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى﴾ [ النحل : ۶۰ ] ’’اور اللہ کی سب سے اونچی صفت ہے۔‘‘ اس کے لیے عرش پر رہ کر ہر ایک کے ساتھ ہونا بالکل معمولی بات ہے۔