سورة الحديد - آیت 3

هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

وہی اول ہے (٣) اور آخر ہے، اور ظاہر ہے، اور باطن ہے، اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ ....: ’’ظَهَرَ يَظْهَرُ‘‘ (ف) کا معنی پوشیدہ کے مقابلے میں ظاہر ہونا بھی ہے اور بلند اور غالب ہونا بھی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ﴾ [ التوبۃ : ۳۳ ] ’’تاکہ وہ اسے ہر دین پر غالب کر دے۔‘‘ یہاں بھی ’’ هُوَ ‘‘ مبتدا کی چاروں خبروں ’’ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ ‘‘ پر الف لام کی وجہ سے حصر پیدا ہو رہا ہے، یعنی وہی ہے جو سب سے پہلے ہے، اس کی کوئی ابتدا نہیں اور وہی سب سے آخر ہے، اس کے بعد کوئی نہیں، اس کی انتہا بھی کوئی نہیں، اس کے سوا سب فنا ہونے والے ہیں، اس پر فنا نہیں۔ وہی ہے جس کا وجود ظاہر ہے، جو کائنات کی ہر چیز سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اسے بنانے والا موجود ہے، جو ہر چیز پر غالب ہے کہ اس نے جو چاہا بنا دیا اور جو چاہتا ہے بنا دیتا ہے، کوئی اس سے اوپر نہیں جو اسے روک سکے اور وہی ہے جس کی ذات پوشیدہ ہے جس کا آنکھیں ادراک نہیں کر سکتیں۔ اس کے سوا کسی میں ان چاروں صفات میں سے ایک صفت بھی نہیں پائی جاتی۔ اس آیت کی بہترین تفسیر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ جب ہم اپنے بستر پر لیٹیں تو یہ کہیں : (( الَلّٰهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَ رَبَّ الْأَرْضِ وَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ، رَبَّنَا وَ رَبَّ كُلِّ شَيْءٍ، فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوٰی، وَ مُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالإِْنْجِيْلِ وَالْفُرْقَانِ، أَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ شَيْءٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهٖ، الَلّٰهُمَّ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ وَ أَنْتَ الْآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ وَ أَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ وَ أَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُوْنَكَ شَيْءٌ، اقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ )) [مسلم، الذکر والدعاء، باب ما یقول عند النوم وأخذ المضجع : ۲۷۱۳ ] ’’اے اللہ! اے آسمانوں کے رب اور زمین کے رب اور عرش عظیم کے رب! ہمارے رب اور ہر چیز کے رب! دانے اور گٹھلیوں کو پھاڑ نکالنے والے اور تورات و انجیل اور فرقان کو نازل کرنے والے! میں ہر اس چیز کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس کی پیشانی کے بالوں کو تو پکڑے ہوئے ہے۔ اے اللہ! تو ہی اوّل ہے، سو تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں اور توہی آخر ہے، سو تیرے بعد کوئی چیز نہیں اور تو ہی ظاہر ہے، سو تجھ سے اوپر کوئی چیز نہیں اور تو ہی باطن ہے، سو تجھ سے ’’دُون ‘‘ (بعد) کوئی چیز نہیں۔ تو ہم سے قرض ادا کر دے اور ہمیں فقر سے غنی کر دے۔‘‘ 2۔ ’’ الْبَاطِنُ ‘‘ کی ایک تفسیر وہ ہے جو عام طور پر کی جاتی ہے، یعنی پوشیدہ۔ اس کے مطابق ’’لَيْسَ دُوْنَكَ شَيْءٌ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ تو ہی پوشیدہ ہے، سو تجھ سے زیادہ پوشیدہ کوئی چیز نہیں۔ یہ مفہوم ’’ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ‘‘ میں بیان ہوا ہے، دیکھیے سورۂ انعام (۱۰۳) کی تفسیر اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے، انھوں نے فرمایا : (( قَامَ فِيْنَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ فَقَالَ إِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَنَامُ وَلَا يَنْبَغِيْ لَهُ أَنْ يَّنَامَ، يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَ يَرْفَعُهُ، يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ وَ عَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْلِ، حِجَابُهُ النُّوْرُ وَفِيْ رِوَايَةِ أَبِيْ بَكْرٍ النَّارُ لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهٰی إِلَيْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهٖ )) [مسلم، الإیمان، باب في قولہ علیہ السلام : ’’ إن اللّٰہ لا ینام....‘‘ : ۱۷۹ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں کھڑے ہو کر پانچ باتیں بیان فرمائیں، چنانچہ آپ نے فرمایا : ’’اللہ عزوجل سوتا نہیں اور اس کے لائق نہیں کہ وہ سوئے، وہ ترازو کو جھکاتا ہے اور اسے اٹھاتا ہے، رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اس کی طرف اوپر لے جایا جاتا ہے۔ اس کا حجاب نور ہے (اور ابوبکر کی روایت میں ہے کہ نار ہے) اگر وہ اسے ہٹا دے تو اس کے چہرے کی کرنیں اس کی مخلوق میں سے ان تمام چیزوں کو جلا دیں جن تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے۔‘‘ 3۔ اور’’ الْبَاطِنُ ‘‘ کی ایک تفسیر وہ ہے جو مفسر طبری نے بیان فرمائی ہے، ان کے الفاظ یہ ہیں: ’’ وَ الظَّاهِرُ ‘‘ يَقُوْلُ وَهُوَ الظَّاهِرُ عَلٰی كُلِّ شَيْءٍ دُوْنَهُ، وَهُوَ الْعَالِيْ فَوْقَ كُلِّ شَيْءٍ، فَلاَ شَيْءَ أَعْلٰی مِنْهُ، ’’ وَ الْبَاطِنُ ‘‘ يَقُوْلُ وَهُوَ الْبَاطِنُ جَمِيْعَ الْأَشْيَاءِ، فَلاَ شَيْءَ أَقْرَبُ إِلٰی شَيْءٍ مِنْهُ، كَمَا قَالَ : ﴿ وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ﴾ [ قٓ : ۱۶] ’’یعنی ’’ وَ الظَّاهِرُ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہی اپنے سوا ہر چیز پر ظاہر ہے اور وہی ہر چیز کے اوپر بلند ہے، کوئی چیز اس سے بلند نہیں اور ’’ وَ الْبَاطِنُ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام اشیاء سے باطن ہے، چنانچہ کوئی چیز کسی چیز سے اس سے زیادہ قریب نہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ﴾ [ قٓ : ۱۶] ’’اور ہم اس کی رگِ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘ خلاصہ یہ کہ ہر چیز سے زیادہ بلند بھی وہی ہے اور ہر چیز کے زیادہ سے زیادہ قریب بھی وہی ہے۔ بہت سے اہلِ علم نے اس قرب سے مراد علم کے لحاظ سے قریب ہونا اور ’’ الْبَاطِنُ ‘‘ کا معنی علم کے لحاظ سے ہر چیز کے قریب کیا ہے۔ یہ بحث آگے آیت (۴) ’’ وَ هُوَ مَعَكُمْ ‘‘ میں کچھ تفصیل سے آ رہی ہے۔