إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ فَأُولَٰئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
اللہ کے نزدیک صرف ان لوگوں کی توبہ قبول (24) ہوتی ہے جو نادانی میں گناہ کر بیٹھتے ہیں، پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں، تو اللہ ان کی توبہ قبول کرتا ہے، اور اللہ بڑا علم والا، بڑی حکمتوں والا ہے
1۔ اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللّٰهِ: یہاں ”عَلَى اللّٰهِ“ کے معنی یہ ہیں کہ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے ذمے لے لیا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز لازم نہیں ہے۔ (قرطبی) 2۔ ”بِجَهَالَةٍ“ یعنی اگر کبھی نادانی اور جذبات سے مغلوب ہو کر گناہ کر بھی لیتے ہیں تو ”مِنْ قَرِيْبٍ“ یعنی جلد ہی توبہ کر لیتے ہیں۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ صرف ان لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے جو جہالت سے گناہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی جہالت سے گناہ نہ کرے بلکہ دیدہ و دانستہ علم رکھتے ہوئے گناہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہی نہیں۔ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں ”بِجَهَالَةٍ“ کی قید احتراز کے لیے نہیں ہے، بلکہ بیان واقعہ کے لیے ہے، یہاں جہالت سے مراد بے خبری اور نا واقفیت نہیں بلکہ بے وقوفی اور سفاہت ہے، کیونکہ ہر گناہ ہوتا ہی جہالت اور بے وقوفی کی وجہ سے ہے۔ گناہ کرنے والا اس کے انجام سے بے پروا ہو کر ہی گناہ کی جرأت کرتا ہے، اگر وہ اس کا انجام پوری طرح اپنی آنکھوں کے سامنے رکھے تو وہ کبھی گناہ کا ارتکاب نہ کر سکے۔ ”مِنْ قَرِيْبٍ“ کا مفہوم یہ ہے کہ موت کے آثار مشاہدہ کرنے سے پہلے پہلے تائب ہو جاتے ہیں۔ ان دو شرطوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔ (قرطبی، ابن کثیر)