وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ
اور تمہاری بیویوں (16) کے ترکہ کا تمہیں آدھا حصہ ملے گا، اگر ان کا کوئی لڑکا نہیں ہوگا، اگر ان کا کوئی لڑکا ہوگا، تو تمہیں ان کے ترکے کا چوتھا حصہ ملے گا (وراثت کی یہ تقسیم) ان کی وصیتوں کی تنفیذ، یا اگر ان پر قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد ہوگی، اور تمہارے ترکہ کا بیویوں کو چوتھا حصہ ملے گا، اگر تمہارا کوئی لڑکا نہیں ہوگا، اگر تمہارا کوئی لڑکا ہوگا، تو انہیں تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا (وراثت کی یہ تقسیم) تمہاری وصیتوں کی تنفیذ، یا اگر تم پر قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد ہوگی، اور اگر میت ایسا آدمی (17) ہو جس کے وارث کلالہ (18) ہوں (یعنی جس کے باپ اور بیٹا بیٹی نہ ہو) یا کوئی ایسی عورت ہوا اور اس کا بھائی یا بہن ہو، تو ان میں سے ہر ایک کو چھٹٓ حصہ ملے گا، اگر بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو وہ اس ایک تہائی مال میں شریک ہوں گے (19) (وراثت کی یہ تقسیم) وصیت کی تنفیذ، یا اگر قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد ہوگی، در آنحالیکہ (اس وصیت یا اس قرض کے اعتراف سے) کسی کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو (20) اللہ کے اس حکم کو نافذ کرو، اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا بردبار ہے
1۔ وَ لَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ: اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو خطاب کر کے فرمایا کہ اگر تمہاری بیویاں مال چھوڑ کر مریں اور ان کی کوئی اولاد نہ ہو تو تمھیں آدھا مال ملے گا اور اگر ان کی اولاد ہے، ایک یا زائد بیٹے بیٹیاں یا پوتے یا پڑپوتے، خواہ تم سے یا کسی اور خاوند سے تو تمھیں چوتھا حصہ ملے گا اور اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو تمہاری بیویوں کو چوتھا حصہ ملے گا اور تمہارے فوت ہونے کی صورت میں اگر تمہاری وارث بننے والی اولاد یا اولا کی فرع ہے، پھر وہ خواہ ان بیویوں سے ہے یا کسی اور سے، بہرحال بیویوں کو آٹھواں حصہ ملے گا، قرض اور وصیت کی ادائیگی کے بعد، پھر بیوی ایک ہو یا زیادہ سب چوتھائی یا آٹھویں حصے میں شریک ہوں گی، اس پر اجماع ہے۔ 2۔ يُوْرَثُ كَلٰلَةً: اگر کوئی مرد یا عورت مر جائے، اس کا نہ والد ہو اور نہ وارث بننے والی اولاد ہو تو اسے ’’کلالہ‘‘ کہتے ہیں۔ بعض ایسی میت کے وارثوں کو ’’کلالہ‘‘ کہتے ہیں۔ بہرحال دونوں پر یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ 3۔ وَ لَهٗۤ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ: بھائی بہن تین طرح کے ہوتے ہیں : (1) عینی یعنی جن کے ماں باپ ایک ہوں۔ (2) علاتی، یعنی جن کا باپ ایک ہو، مائیں مختلف ہوں۔ (3) اخیافی، جن کی ماں ایک ہو اور باپ مختلف ہوں۔ یہاں بالاتفاق اخیافی بھائی بہن مراد ہیں، جیسا کہ ایک قراء ت میں بھی ہے۔ 4۔ اخیافی بھائی چار احکام میں دوسرے وارثوں سے مختلف ہیں : (1) یہ صرف ماں کی جہت سے ورثہ لیتے ہیں۔ (2) ان میں سے مرد اور عورت کو مساوی حصہ دیا جاتا ہے۔ (3) ان کو صرف میت کے کلالہ ہونے کی صورت میں حصہ ملتا ہے۔ (4) خواہ کتنے ہی ہوں ان کا حصہ ثلث سے زیادہ نہیں ہوتا، مثلاً ایک میت کا شوہر، ماں ، دو اخیافی اور دو عینی بھائی موجود ہوں تو جمہور اہل علم کے نزدیک شوہر کو نصف (۲؍۱) ملے گا، ماں کو سدس(۶؍۱) ملے گا اور بقیہ تہائی حصے میں اخیافی بھائیوں کے ساتھ عینی بھائی بھی شریک ہوں گے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مقدمہ میں یہی فیصلہ صادر فرمایا تھا۔ صحابہ میں سے عثمان، ابن مسعود، ابن عباس اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور ائمہ میں سے امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے، البتہ علی رضی اللہ عنہ اخیافی بھائیوں کے اصحاب الفروض ہونے کی وجہ سے دوسرے سگے بھائیوں کو عصبہ ہونے کی وجہ سے محروم قرار دیتے ہیں۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے اس دوسرے مسلک کو ترجیح دی ہے۔ (ابن کثیر، فتح القدیر) 5۔ فَهُمْ شُرَكَآءُ فِي الثُّلُثِ: اخیافی بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو مرد ہو یا عورتیں، یا مرد اور عورتیں ملے ہوئے ہوں، سب میں تیسرا حصہ برابر تقسیم کر دیا جائے گا، یعنی یہاں مرد کو عورت پر فضیلت نہیں ہو گی، جیسا کہ آیت میں ﴿شُرَكَآءُ فِي الثُّلُثِ﴾ سے معلوم ہوتا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اسی کے مطابق فیصلہ فرمایا اور ظاہر ہے کہ ایسا فیصلہ محض اجتہاد سے نہیں کیا جا سکتا۔ (ابن کثیر) 6۔ غَيْرَ مُضَآرٍّ: یہ حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے اور اس کا تعلق وصیت اور قرض دونوں سے ہے۔ وصیت میں نقصان پہنچانا ایک تو یہ ہے کہ تہائی مال سے زیادہ وصیت کرے، اس صورت میں تہائی سے زائد وصیت کا نفاذ نہیں ہوگا۔ مگر یہ کہ ورثاء اجازت دے دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی وارث کو مزید رعایت سے زائد مال دلوایا جائے، اس کا بھی اعتبار نہیں ہو گا، الا یہ کہ تمام وارث برضا و رغبت اسے قبول کر لیں۔ قرض میں نقصان پہنچانا یہ ہے کہ محض وارثوں کا حق تلف کرنے کے لیے مرنے والا اپنے ذمے کسی ایسے قرض کا اقرار کرے جو حقیقت میں اس کے ذمے نہ ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’وصیت میں نقصان پہنچانا کبیرہ گناہ ہے۔‘‘ [ السنن الکبرٰی للنسائی :10؍60، ح : ۱۱۰۲۶، و سندہ صحیح ]