حُورٌ مَّقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ
یعنی بڑی کشادہ اور کشادہ آنکھوں والی حوریں، جوخیموں میں اقامت پذیر ہوں گی
1۔ ’’ حُوْرٌ ‘‘ ’’حَوْرَاء‘‘ کی جمع ہے، مادہ اس کا ’’حَوَرٌ‘‘ ہے، ’’گورے رنگ کی عورتیں‘‘ جنھیں دیکھ کر آنکھ حیران رہ جائے اور جن کی آنکھ کی سفیدی بہت سفید اور سیاہی بہت سیاہ ہو۔ [ دیکھیے بخاري : الجھاد والسیر، باب الحور العین و صفتھن، قبل ح: ۲۱۷۵] 2۔ مَقْصُوْرٰتٌ فِي الْخِيَامِ: لفظ ’’ حُوْرٌ ‘‘ میں ان کی صورت کا حسن بیان ہوا ہے اور ’’ مَقْصُوْرٰتٌ فِي الْخِيَامِ ‘‘ میں ان کی سیرت کا حسن بیان ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ عورت کی خوبی گھر رکے رہنے میں ہے۔ ان الفاظ میں ان عورتوں کے لیے ہر طرح کی خوش حالی اور نعمت میسر ہونے کا اشارہ بھی ہے، کیونکہ دنیا میں سردار عورتوں کو کسی کی نوکری یا خدمت یا کھیتوں وغیرہ میں کام کرنے کے لیے گھر سے باہر نہیں جانا پڑتا، حتیٰ کہ میل ملاقات کے لیے بھی دوسری عورتیں ہی ان کے پاس آتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ نہایت معزز اور مخدوم ہیں، جیسا کہ ابو قیس بن الاسلت نے کہا ہے : وَيُكْرِمُهَا جَارَاتُهَا فَيَزُرْنَهَا وَ تَعْتَلُّ عَنْ إِتْيَانِهُنَّ فَتُعْذَرُ ’’اس کی پڑوسنیں اس کا اکرام کرتی ہیں، اس لیے اس سے ملنے کے لیے خود آتی ہیں اور یہ ان کے پاس آنے سے کوئی نہ کوئی بہانہ کر دیتی ہے تو اسے قبول کر لیا جاتا ہے۔‘‘ [ التحریر و التنویر ] 3۔ فِي الْخِيَامِ: ’’ الْخِيَامِ ‘‘ ’’خَيْمَةٌ‘‘ کی جمع ہے، جو عموماً پشم یا بالوں کے بنے ہوئے کپڑے سے بنایا جاتا ہے۔ پھر جتنے خوشحال لوگوں کا ہو اتنا ہی قیمتی، اونچا اور شاندار بنایا جاتا ہے۔ جنت کے خیموں کا وصف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا، عبداللہ بن قیس (ابو موسیٰ اشعری) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ فِي الْجَنَّةِ خَيْمَةً مِنْ لُؤْلُؤَةٍ مُجَوَّفَةٍ عَرْضُهَا سِتُّوْنَ مِيْلاً فِيْ كُلِّ زَاوِيَةٍ مِّنْهَا أَهْلٌ مَا يَرَوْنَ الْآخَرِيْنَ يَطُوْفُ عَلَيْهِمُ الْمُؤْمِنُوْنَ )) [بخاري، التفسیر، باب: ﴿حور مقصورات في الخیام ﴾ : ۴۸۷۹ ] ’’جنت میں ایک خولدار موتی کا خیمہ ہے جس کا عرض ساٹھ میل ہے، اس کے ہر کونے میں ایک گھر والے ہیں جو دوسروں کو نہیں دیکھتے، مومن ان پر چکر لگائیں گے۔‘‘