سورة الرحمن - آیت 46

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہو کر حساب دینے سے ڈرتا (٢٠) ہے، اس کے لئے دو باغ ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ: ’’ مَقَامَ ‘‘ ’’قَامَ يَقُوْمُ قِيَامًا‘‘ (ن) سے ظرف بھی ہو سکتا ہے ’’کھڑا ہونے کی جگہ یا وقت‘‘ اور مصدر میمی بھی ہو سکتا ہے ’’کھڑا ہونا۔‘‘ جہنم اور اہلِ جہنم کے تذکرے کے بعد اہلِ جنت کا ذکر فرمایا۔ ’’ مَقَامَ رَبِّهٖ ‘‘ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں قرآن مجید کی آیات میں ملتے ہیں، ایک یہ کہ جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لیے دو باغ ہیں۔ اس صورت میں ’’ مَقَامَ رَبِّهٖ‘‘سے مراد بندے کا اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ اس کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے، فرمایا : ﴿يَوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ [المطففین: ۶] ’’جس دن لوگ رب العالمین کے لیے کھڑے ہوں گے۔‘‘ دوسرا یہ کہ جو شخص اپنے رب کے (اپنے اوپر ہر وقت) قائم (نگران) ہونے سے ڈر گیا۔ اس معنی کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے، فرمایا: ﴿اَفَمَنْ هُوَ قَآىِٕمٌ عَلٰى كُلِّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ ﴾ [الرعد:۳۳ ] ’’تو کیا وہ جو ہر جان پر اس کا نگران ہے جو اس نے کمایا( کوئی دوسرا اس کے برابر ہو سکتا ہے)؟‘‘ آیت سے دونوں معنی بیک وقت مراد ہو سکتے ہیں اور یہ بھی قرآن مجید کا ایک کمال ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ متعدد معانی کا حامل ہے۔ یعنی جو شخص اس بات سے ڈر گیا کہ اس نے قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اس بات سے بھی ڈرتا رہا کہ اس کا رب اس کی ہرچھوٹی بڑی حرکت کو دیکھ رہا ہے، تو اس کے لیے دو باغ ہیں۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ جنت کی وراثت کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے، کیونکہ یہی وہ جوہر ہے جو انسان کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچاتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو موقع میسر ہونے پر انسان کو کوئی بھی چیز کسی بھی جرم کے ارتکاب سے نہیں روک سکتی اور جب یہ موجود ہو تو آدمی کے قدم مشکل سے مشکل مقام پر نہیں ڈگمگاتے۔ صحیح بخاری(۶۶۰) میں قیامت کے دن جن سات آدمیوں کو عرش کا سایہ ملنے کی بشارت دی گئی ہے ان سب کے اعمال میں اصل اللہ تعالیٰ کا ڈر ہی ہے اور اس کفن چور کی مغفرت کا باعث بھی اللہ کا ڈر تھا جس نے وصیت کی تھی کہ مجھے جلا کر میری کچھ راکھ کو ہوا میں اڑا دیا جائے اور کچھ کو پانی میں بہا دیا جائے۔(دیکھیے بخاری: ۳۴۵۲) ’’مَقَامَ رَبِّهٖ‘‘ کے لفظ میں خوف کے ساتھ محبت کا پہلو بھی نمایاں ہے کہ وہ کسی اجنبی یا ظالم سے نہیں ڈر رہا، بلکہ اپنے مالک سے ڈر رہا ہے جس نے اسے پیدا کیا، پھر ہر لمحے اس کی پرورش کر رہا ہے اور اس کی ہر ضرورت پوری کر رہا ہے۔ جَنَّتٰنِ: ’’جَنَّةٌ‘‘ کا اصل معنی باغ ہے۔ قرآن مجید میں کہیں یہ لفظ مفرد آیا ہے اور تمام اہلِ ایمان کے ایک ہی جنت میں داخلے کا ذکر ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُوْنَ فِيْهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴾ [ المؤمن : ۴۰ ] ’’اور جس نے کوئی نیک عمل کیا، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہوا تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے، اس میں بے حساب رزق دیے جائیں گے۔‘‘ اور کہیں جمع آیا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ بَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ﴾ [ البقرۃ : ۲۵ ] ’’اور ان لوگوں کو خوش خبری دے دے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے کہ ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے تلے نہریں بہتی ہیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اس بڑے باغ میں بے شمار باغات ہیں، جن میں سے ہر مومن کو دو دو باغ عطا کیے جائیں گے، جن کا وہ مالک ہو گا (لام تملیک کے لیے ہے) اور جن میں وہ سب کچھ ہو گا جس کا آگے ذکر ہو رہا ہے۔ 3۔ ان آیات میں ہر اس شخص کو دو دو باغ ملنے کا ذکر ہے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا۔ چند آیات کے بعد اور دو باغوں کا ذکر ہے، فرمایا : ﴿وَ مِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّتٰنِ ﴾ جس کا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان دونوں کے علاوہ بھی دو باغ ہیں اور یہ بھی کہ ان دونوں سے کم درجے والے بھی دو باغ ہیں۔ دونوں آیات کو ملائیں تو مطلب یہ ہے کہ ان دونوں کے علاوہ دو اور باغ ہیں جو پہلے باغوں سے کم درجے کے ہیں۔ تحقیق یہی ہے کہ پہلے دو باغ اعلیٰ ہیں جو مقربین کے لیے ہیں اور دوسرے دو باغ ان سے کم درجے والے ہیں جو اصحاب الیمین کے لیے ہیں۔ سورۂ واقعہ میں بھی سابقین کو مقربین قرار دے کر انھیں ملنے والی نعمتوں کا پہلے الگ ذکر فرمایا ہے، اس کے بعد اصحاب الیمین کا ذکر کر کے انھیں ملنے والی نعمتوں کا الگ ذکر فرمایا، یہاں بھی ایسے ہی ہے، تقریباً ہر نعمت میں دونوں کا فرق نمایاں ہے، تفسیر میں اس فرق کی طرف اشارہ آ رہا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں یہ حدیث ذکر فرمائی ہے کہ عبداللہ بن قیس (ابو موسیٰ اشعری) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( جَنَّتَانِ مِنْ فِضَّةٍ ، آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيْهِمَا، وَجَنَّتَانِ مِنْ ذَهَبٍ آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيْهِمَا، وَمَا بَيْنَ الْقَوْمِ وَ بَيْنَ أَنْ يَّنْظُرُوْا إِلٰی رَبِّهِمْ إِلاَّ رِدَاءَ الْكِبْرِ عَلٰی وَجْهِهِ فِيْ جَنَّةِ عَدْنٍ )) [ بخاری التفسیر، باب قولہ : ﴿ومن دونھما جنتان ﴾ : ۴۸۷۸ ] ’’دو باغ ایسے ہیں جن کے برتن اور جو کچھ ان دونوں میں ہے چاندی کا ہے اور دو باغ ایسے ہیں جن کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے سونے کا ہے۔ اور جنت عدن میں جنتیوں کے درمیان اور ان کے اپنے رب کو دیکھنے کے درمیان کبریائی کی چادر کے سوا کوئی رکاوٹ نہیں جو اس کے چہرے پر ہے۔‘‘ صحیح بخاری میں اس کی سند اس طرح ہے : ’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيْزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ، حَدَّثَنَا أَبُوْ عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ عَنْ أَبِيْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ....۔‘‘ فتح الباری (۸؍۶۲۴) میں ہے کہ اسی حدیث کو ابن مردویہ نے (عبد العزیز کے بجائے) ’’حَمَّادٌ عَنْ أَبِيْ عِمْرَانَ‘‘ بیان کیا ہے، اس میں یہ لفظ ہیں : (( مِنْ ذَهَبٍ لِلسَّابِقِيْنَ وَ مِنْ فِضَّةٍ لِلتَّابِعِيْنَ)) یعنی سابقین کے لیے سونے والے اور تابعین کے لیے چاندی والے باغ ہوں گے۔ اور ابوبکر سے ثابت کی روایت میں یہ الفاظ ہیں : (( مِنْ ذَهَبٍ لِلْمُقَرَّبِيْنَ وَ مِنْ فِضَّةٍ لِأَصْحَابِ الْيَمِيْنِ)) یعنی سونے والے باغ مقربین کے لیے اور چاندی والے اصحاب الیمین کے لیے ہیں۔ اس حدیث کے طرق سے واضح ہے کہ پہلے دو باغ مقربین کے لیے ہیں اور دوسرے دو باغ اصحاب الیمین کے لیے ہیں۔