فَتَوَلَّ عَنْهُمْ ۘ يَوْمَ يَدْعُ الدَّاعِ إِلَىٰ شَيْءٍ نُّكُرٍ
پس اے میرے نبی ! آپ ان سے الگ (٣) ہوجائیے، جس دن پکارنے والا (یعنی اسرافیل) ہولناک چیز کی طرف بلائے گا
1۔ فَتَوَلَّ عَنْهُمْ: یعنی جب ان لوگوں کو کسی تنبیہ یا ڈرانے کا کچھ فائدہ ہی نہیں ہوتا تو آپ بھی ان سے منہ پھیر لیں اور انھیں ان کے حال پر رہنے دیں۔ آپ کے ذمے پہنچانا تھا، وہ آپ نے پہنچا دیا۔ 2۔ يَوْمَ يَدْعُ الدَّاعِ اِلٰى شَيْءٍ نُّكُرٍ: ’’ يَوْمَ ‘‘ منصوب بنزع الخافض ہے، یعنی اس سے پہلے حرفِ جار ’’إِلٰي‘‘ ہے جسے حذف کرنے کی وجہ سے یہ منصوب ہے۔ (بغوی) آلوسی نے کہا : ’’ هٰذَا قَوْلُ الْحَسَنِ ‘‘ کہ یہ حسن کا قول ہے یعنی ’’ فَتَوَلَّ عَنْهُمْ إِلٰی يَوْمٍ يَدْعُ الدَّاعِ فِيْهِ إِلٰی شَيْءٍ نُّكُرٍ ‘‘ ’’سو ان سے منہ پھیر لے، اس دن تک جس میں پکارنے والا ایک ناگوار چیز کی طرف بلائے گا۔‘‘ یا ’’ يَوْمَ ‘‘ فعل محذوف ’’اُنْظُرْ‘‘ کے ساتھ منصوب ہے، یعنی ’’ان سے منہ پھیر لے اور اس دن کا انتظار کر جب…۔‘‘ پکارنے والے سے مراد اسرافیل علیہ السلام ہیں، جن کے نفخہ سے تمام لوگ قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے۔ ’’ يَدْعُ ‘‘ اصل میں ’’يَدْعُوْ‘‘ ہے، واؤ چونکہ یہاں پڑھنے میں نہیں آتی اس لیے مصحفِ عثمان میں لکھی نہیں گئی۔ ’’ الدَّاعِ ‘‘ اصل میں ’’الدَّاعِيُ‘‘ ہے، ’’یاء‘‘ تخفیف کے لیے حذف کی گئی ہے اور ’’ شَيْءٍ نُّكُرٍ ‘‘ سے مراد حساب کتاب ہے ’’ نُكُرٍ ‘‘ بمعنی ’’ مُنْكِرٌ ‘‘ ہے، ناگوار، اجنبی، انوکھی چیز جو کبھی دیکھی نہ ہو گی۔