وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ
اور یہ کہ انسان کو صرف اس کے اپنے ہی عمل کا بدلہ ملے گا
وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى: یعنی جس طرح کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ اس پر نہیں ڈالا جائے گا اسی طرح اسے اجر و ثواب بھی انھی اعمال کا ملے گا جو اس نے خود کیے ہیں۔ یہاں ایک سوال ہے کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ آدمی کو دوسروں کے نیک اعمال سے فائدہ پہنچتا ہے، مثلاً گناہ گاروں کے لیے انبیاء، فرشتوں اور صالحین کی شفاعت، مُردوں کے لیے زندوں کی دعا (دیکھیے مومن : 8،7۔ حشر : ۱۰) اور باپ کے عمل سے اولاد کے درجوں کا بلند ہونا تو قرآن سے ثابت ہے (دیکھیے طور : ۲۱) اور میت کی طرف سے صدقہ، صیام اور حج وغیرہ کا نافع ہونا حدیث سے ثابت ہے، تو اس آیت کے ساتھ اس کی مطابقت کیسے ہو گی؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسی شخص کے لیے نافع ہو گا جو ایمان لے آیا، کافر کو ان میں سے کوئی چیز نفع نہیں دے گی۔ ایمان کے بعد ان چیزوں کا نافع ہونا اس کی اپنی سعی یعنی ایمان ہی کی برکت اور اسی کا نتیجہ ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب سے کہا تھا : (( أَيْ عَمِّ! قُلْ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ، كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللّٰهِ )) [ بخاري، مناقب الأنصار، باب قصۃ أبي طالب : ۳۸۸۴ ] ’’اے چچا! تو ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہہ لے، میں اس کلمے کے ساتھ تیری خاطر اللہ تعالیٰ کے پاس جھگڑوں گا۔‘‘ اور ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا : ﴿يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَ (88) اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ﴾ [ الشعراء : 89،88 ] ’’جس دن نہ کوئی مال فائدہ دے گا اور نہ بیٹے۔ مگر جو اللہ کے پاس سلامتی والا دل لے کر آیا۔‘‘ کفر و شرک سے سلامت دل والے کو وہاں اس کے بیٹے بھی کام آئیں گے جو اس کے بعد اعمالِ صالحہ کرتے رہے اور اس کے لیے دعا کرتے رہے اور اس کا مال بھی جو صدقہ جاریہ کی صورت میں اس کے نامۂ اعمال میں ثبت ہوتا رہا۔ بلند درجے والے مومن والدین کے ساتھ ان کی اسی اولاد کو ملایا جائے گا جو ایمان کی نعمت رکھتے ہوں گے، خواہ کسی بھی درجے کا ہو۔ دیکھیے سورۂ طور (۲۱) کی تفسیر۔