ذَٰلِكَ مَبْلَغُهُم مِّنَ الْعِلْمِ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدَىٰ
ان کے علم کی یہی انتہا (١٩) ہے، بے شک آپ کا رب اس آدمی کو خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے، اور اس شخص کو بھی خوب جانتا ہے جو راہ راست پر ہے
1۔ ذٰلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ: ’’مَبْلَغٌ‘‘ ’’بَلَغَ يَبْلُغُ‘‘(ن)سے ظرف ہے، پہنچنے کی جگہ۔ ’’ذٰلِكَ‘‘ کا لفظ تحقیر کے لیے ہے کہ ان لوگوں کے علم کی پہنچ اور انتہا اس حقیر حیاتِ دنیا تک ہی ہے، جو آخرت کے مقابلے میں قلیل بھی ہے اور ناپائیدار بھی، اس سے آگے نہ انھیں کچھ علم ہے نہ وہ اس سے آگے جاننے یا سوچنے کے لیے تیار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ایک دعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ آئے ہیں : (( وَلاَ تَجْعَلِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا وَلاَ مَبْلَغَ عِلْمِنَا )) [ ترمذي، الدعوات، باب دعاء ”اللهم اقسم لنا....“: ۳۵۰۲، قال الألباني حسن] ’’اور دنیا کو ہماری سب سے بڑی فکر نہ بنانا اور نہ اسے ہمارے علم کی انتہا بنانا۔‘‘ 2۔ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهٖ....: اس سے اللہ تعالیٰ کا کمال علم ثابت ہوتا ہے کہ اسے ان تمام لوگوں کا علم ہے جو اس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں اور ان کا بھی جو اس کی راہ پر قائم ہیں۔