سورة النجم - آیت 6

ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

وہ فرشتہ جسمانی اور عقلی اعتبار سے کمال کو پہنچا ہوا ہے، پھر وہ نمودار ہوا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

ذُوْ مِرَّةٍ: طاقت، توانائی اور مضبوطی والا۔ ’’مِرَّةٍ ‘‘ کا لفظ اصل میں رسی کو بٹنے اور بل دے کر مضبوط کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ اس پر تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ’’بڑی طاقت والا‘‘ کیا گیا ہے۔ اس طاقت میں عملی اور علمی دونوں طاقتیں شامل ہیں۔ ’’ شَدِيْدُ الْقُوٰى ‘‘ کے بعد ’’ ذُوْ مِرَّةٍ ‘‘کے ساتھ ان کی طاقت اور توانائی کو مزید اجاگر فرمایا ہے۔ بعض مفسرین نے ’’ شَدِيْدُ الْقُوٰى‘‘سے عملی قوتیں اور ’’ ذُوْ مِرَّةٍ‘‘ سے علمی اور عقلی قوتیں مراد لی ہیں، مگر دونوں لفظ ہر قسم کی قوتوں پر استعمال ہوتے ہیں، اس لیے تاکید مراد لینا راجح معلوم ہوتا ہے۔ 2۔ ’’ فَاسْتَوٰى ‘‘ برابر ہوا، بلند ہوا۔ ’’اُفق‘‘ دور سے نظر آنے والی وہ جگہ جہاں زمین و آسمان ملتے ہوئے نظر آتے ہیں اور آسمان نیلے گنبد کی طرح بلند ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ’’اُفقِ اعلی ‘‘ مشرقی کنارا، جہاں سے سورج طلوع کے وقت بلند ہوتا ہے۔ اسی کو دوسری جگہ ’’اَلْأُفُقُ الْمُبِيْنُ‘‘ فرمایا، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ لَقَدْ رَاٰهُ بِالْاُفُقِ الْمُبِيْنِ﴾ [ التکویر : ۲۳ ] ’’اور بلاشبہ یقیناً اس نے اس (جبریل) کو (آسمان کے) روشن کنارے پر دیکھا ہے۔‘‘ فَتَدَلّٰى: یہ ’’دَلْوٌ‘‘سے مشتق ہے، سورۂ یوسف میں ہے : ﴿فَاَدْلٰى دَلْوَهٗ ﴾ [یوسف : ۱۹] ’’تو اس نے اپنا ڈول لٹکایا۔‘‘ ’’تَدَلّٰي‘‘ لٹک آیا، یعنی فضا میں رہتے ہوئے کچھ نیچے آ گیا۔ ’’ قَابَ ‘‘ مقدار۔ ’’ اَوْ اَدْنٰى ‘‘ یا زیادہ قریب۔ یعنی اگر آدمی اس فاصلے کو دیکھے تو اسے یہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم نظر آئے۔ بعض اہلِ علم نے فرمایا، یہاں ’’ اَوْ ‘‘ ’’ بَلْ ‘‘ کے معنی میں ہے، یعنی دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم، جیسا کہ یونس علیہ السلام کے متعلق فرمایا : ﴿وَ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ ﴾ [الصافات : ۱۴۷ ] ’’اور ہم نے اسے ایک لاکھ کی طرف بھیجا، بلکہ وہ زیادہ ہوں گے۔‘‘ 4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جبریل علیہ السلام کو دو بار ان کی اصل صورت میں دیکھا ہے۔ ان آیات میں پہلی بار دیکھنے کا ذکر ہے، جبریل علیہ السلام آسمان کے مشرقی کنارے پر نمودار ہوئے، تو زمین و آسمان کا درمیانی فاصلہ ان سے پُر ہو گیا، جیسا کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما نے بیان کیا کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ (پہلی وحی کے بعد) وحی کے وقفے کے متعلق بیان فرما رہے تھے : (( فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِيْ إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِّنَ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِيْ قِبَلَ السَّمَاءِ فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِيْ جَاءَنِيْ بِحِرَاءٍ قَاعِدٌ عَلٰی كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَجُئِثْتُ مِنْهُ حَتّٰی هَوَيْتُ إِلَی الْأَرْضِ فَجِئْتُ أَهْلِيْ فَقُلْتُ زَمِّلُوْنِيْ زَمِّلُوْنِيْ فَزَمَّلُوْنِيْ، فَأَنْزَلَ اللّٰهُ تَعَالٰی: ﴿يٰاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَاَنْذِرْ ﴾ إِلٰی ﴿ فَاهْجُرْ ﴾ ثُمَّ حَمِيَ الْوَحْيُ وَ تَتَابَعَ )) [بخاري، التفسیر، سورۃ المدثر، باب : ﴿والرجز فاہجر﴾ : ۴۹۲۶ ] ’’ایک دفعہ میں چلا جا رہا تھا، اچانک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی تو میں نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے، تو میں اس سے ڈر گیا، یہاں تک کہ میں زمین پر گر گیا، پھر میں اپنے گھر والوں کے پاس آیا اور کہا، مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو، تو انھوں نے مجھے چادر اوڑھا دی۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : ﴿يٰاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَاَنْذِرْ(2) وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ(3) وَ ثِيَابَكَ فَطَهِّرْ(4) وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ﴾ پھر وحی گرما گرم ہو گئی اور پے در پے آنے لگی۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبریل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دیکھنے کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے : (( حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ قَالَ سَمِعْتُ زِرًّا عَنْ عَبْد ِاللّٰهِ ﴿ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى (9) فَاَوْحٰى اِلٰى عَبْدِهٖ مَا اَوْحٰى ﴾ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ مَسْعُوْدٍ أَنَّهُ رَاٰی جِبْرِيْلَ لَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ )) [ بخاري، التفسیر، سورۃ النجم، باب : ﴿فکان قاب قوسین أو أدنی ﴾ : ۴۸۵۶ ] ’’زِرّ (بن حُبیش) نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ﴿ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى (9) فَاَوْحٰى اِلٰى عَبْدِهٖ مَا اَوْحٰى﴾ کی تفسیر روایت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل کو دیکھا، ان کے چھ سو پر تھے۔ ‘‘ ان آیات کا مقصد کفار کے اس الزام کی تردید ہے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لگاتے تھے کہ کوئی عجمی آدمی اسے قرآن کی باتیں سکھا جاتا ہے اور یہ ہمیں سنا کر کہتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ کسی عجمی شخص نے نہیں، بلکہ ایک نہایت مضبوط قوتوں اور بڑی طاقت والے فرشتے نے اسے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ وہ شدید القویٰ فرشتہ مشرقی اُفق پر بلند ہوا، اس وقت وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا، پھر وہ فضا ہی میں نیچے اترتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنا قریب ہوا کہ آپ سے دو کمانوں سے بھی کم فاصلے پر آگیا۔