فَذَكِّرْ فَمَا أَنتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَلَا مَجْنُونٍ
پس اے میرے نبی ! آپ نصیحت (١٣) کرتے رہئے، اس لئے کہ اپنے رب کی نعمت (یعنی رسالت) پا کر، نہ تو آپ کا ہن ہیں اور نہ مجنوں
1۔ فَذَكِّرْ فَمَا اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّ لَا مَجْنُوْنٍ: ’’كاہن‘‘ وہ شخص جو شیاطین سے تعلق رکھتا ہے اور ان سے سن کر غیب کی خبریں دیتا ہے، جن میں ایک آدھ وہ سچی خبر بھی ہوتی ہے جو انھوں نے آسمان کے نیچے فرشتوں کی باہمی گفتگو سے چُرائی ہوتی ہے، پھر اس کے ساتھ سو باتیں جھوٹی ملا کر اپنے دوستوں کو بتاتے ہیں۔ 2۔ سورت کے شروع سے قیامت، جزا و سزا اور جنت و جہنم کی تفصیل اور دلائل ذکر کرنے کے بعد فرمایا : ’’ فَذَكِّرْ ‘‘ (پس نصیحت کر) یعنی جب ہم نے یہ سب کچھ آپ کو وحی کے ذریعے سے بتا دیا تو اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کے ساتھ تمام لوگوں کو نصیحت کریں اور کفار و مشرکین کی بے ہودہ باتوں اور تہمتوں کی پروا نہ کریں۔ وہ آپ کو کاہن کہیں یا مجنون، آپ اللہ کے فضل سے کسی طرح بھی نہ کاہن ہیں نہ مجنون۔ کہانت یا دیوانگی کی کوئی بھی بات آپ میں ہرگز نہیں پائی جاتی۔ ’’ فَمَا اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ ‘‘ میں ’’مَا ‘‘ نافیہ کے بعد ’’باء‘‘ نفی کی تاکید کے لیے ہے اور ’’ بِكَاهِنٍ ‘‘ پر تنوین تنکیر کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’تو اپنے رب کی مہربانی سے ہرگز نہ کسی طرح کاہن ہے اور نہ کوئی دیوانہ۔‘‘ 3۔ اللہ تعالیٰ نے اور مقامات پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہانت اور جنون کی نفی فرمائی ہے۔ دیکھیے سورۂ حاقہ (۴۱، ۴۲)، قلم (۲) اور سورۂ تکویر (۲۲)۔ سورۂ شعراء میں یہ بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاہن نہیں اور یہ کہ کاہن کس طرح کے لوگ ہوتے ہیں، تفصیل سے گزر چکی ہے، دیکھیے سورۂ شعراء کی آیات ( ۲۱۰ تا ۲۲۳) اور ان کی تفسیر۔