كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
ہر نفس کو موت کا مزا چکھنا (123) ہے، اور قیامت کے دن تمہیں تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، پس قیامت کے دن تمہیں تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، پس قیامت کے دن جو شخص آگ سے دور کردیا جائے گا، اور جنت میں داخل کردیا جائے گا، وہ فائز المرام ہوجائے گا، اور دنیا کی زندگی صرف دھوکے کا سامان ہے
بخیلوں کا حال اور ان کا کفر بیان کرنے کے بعد یہاں بتایا کہ دنیا کے جس مال و متاع کے جمع کرنے کے لیے انسان بخل کرتا ہے، یہ سب کچھ فانی ہے اور باقی نہ رہنے والا ہے اور آخرت کی زندگی ہی باقی اور ابدی ہے۔ لہٰذا انسان کو چاہیے کہ آخرت کی فکر کرے اور اس میں کامیابی کی کوشش کرتا رہے۔ اور یہ جو فرمایا : ’’ تمھیں تمہارے اجر قیامت کے دن ہی پورے دیے جائیں گے‘‘ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کو دنیا یا برزخ میں بھی کچھ نہ کچھ اعمال کا بدلہ ملتا ہے، مگر پورا بدلہ یعنی پورا ثواب و عقاب قیامت کے دن ہی ملے گا، اس سے پہلے ممکن نہیں۔ اور دنیا کی زندگی محض ”مَتَاعُ الْغُرُوْرِ“ (دھوکے کا سامان) ہے، اس کی ظاہری زیب و زینت سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے، اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے۔ [ لاَ عَیْشَ اِلاَّ عَیْشُ الْآخِرَہْ ]