وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا (٢٣) کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں
1۔ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ: اس آیت میں بتایا کہ نصیحت کیا کرنی ہے اور کون سی بات یاد دلانی ہے۔ فرمایا انھیں یاد دلاؤ کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ 2۔ عبادت کا معنی بندگی ہے۔ غلام کو عربی میں عبد اور فارسی میں بندہ کہتے ہیں۔ عبادت وہ تعلق ہے جو غلام کا اپنے مالک یا عبد کااپنے رب کے ساتھ ہوتا ہے۔ 3۔ کائنات کی ہر چیز رب تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے، کسی کی مجال نہیں کہ ذرہ برابر سرتابی کر سکے۔ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے ’’كُنْ‘‘ کہتا ہے اور وہ ہو جاتی ہے۔ اس ارادے کو ارادۂ کونیہ اور اس حکم کو تکوینی حکم کہتے ہیں، فرمایا : ﴿ اِنَّمَااَمْرُهٗ اِذَا اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ﴾ [ یٰسٓ : ۸۲ ] ’’اس کا حکم تو، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ اسے کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘ 4۔ اکثر معاملات میں انسان اور جن بھی اللہ تعالیٰ کے اس ارادۂ کونیہ اور تکوینی حکم کے اسی طرح پابند ہیں جس طرح دوسری تمام چیزیں، ان کی پیدائش، عمر، رزق، صحت، مرض اور ان کے اعضا کے افعال اور صلاحیتوں میں ان کی مرضی کا کچھ دخل نہیں۔ البتہ ان دونوں کو امتحان کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک حد تک اختیار عطا فرمایا ہے اور زندگی گزارنے کے لیے اپنے رسولوں کے ذریعے سے کچھ احکام دیے ہیں کہ میں تمھارا رب ہوں اور تم میرے بندے ہو، میں تمھارا مالک ہوں اور تم میرے غلام ہو، لہٰذا تم نے میری غلامی اور بندگی میں زندگی بسر کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو حکم شرعی اور اس ارادے کو ارادۂ شرعیہ کہتے ہیں۔ انسان اس حکم کی تعمیل اور اس ارادے کو پورا بھی کر سکتا ہے اور اسے اس حکم کی نافرمانی اور اس ارادے کو پورا نہ کرنے کا بھی اختیار ہے۔ اسی اختیار پر اس سے باز پرس ہو گی اور وہ ثواب یا عذاب کا مستحق بنے گا، فرمایا : ﴿الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ﴾ [ الملک : ۲ ] ’’وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی یاد دہانی کے لیے پیغمبر بھیجے اور فرمایا : ﴿ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ﴾ ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ یعنی ان دونوں کو پیدا کرنے سے میرا مقصد اور ارادۂ شرعیہ یہی ہے کہ وہ میری عبادت اور میری بندگی و غلامی کریں اور اپنی پوری زندگی میرے احکام کے مطابق گزاریں۔ 5۔ بعض لوگوں نے رکوع و سجود، قیام، ذکر، نماز، روزے ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ ہی کو عبادت سمجھ رکھا ہے، بے شک یہ بھی عبادت ہیں، مگر صرف یہی عبادت نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم بھی دیا ہے اس کی اطاعت کرنا عبادت ہے، کیونکہ بندگی اور عبادت کا مطلب ہی مالک کے حکم بلکہ اشارے پر چلنا ہے۔ جو مالک کا حکم نہ مانے وہ غلام کیسا اور جو اپنے رب کے حکم پر نہ چلے وہ عبد کیسا؟ جو شخص مسجد میں تو نماز پڑھتا ہے مگر گھر، بازار اور عدالت میں اپنی مرضی پر چلتا ہے وہ نہ رب کا بندہ ہے اور نہ اس کا عبد۔ ہاں اگر وہ ہر کام میں اس کے حکم پر چلتا ہے تو اس کا ہر کام عبادت ہے، حتیٰ کہ نماز ہی نہیں، اس کا کھانا پینا، سونا اور بیوی سے صحبت بھی عبادت ہے، کیونکہ رب کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس نے مالک کے منع کیے ہوئے حرام سے اجتناب کیا اور اپنی خواہش پوری کی تو اپنے مالک کے حکم پر چلتے ہوئے پوری کی، یہی بندگی اور یہی عبادت ہے۔ 6۔ رب تعالیٰ کا اپنے بندوں سے سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس اکیلے کو اپنا رب اور مالک مانیں، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کریں۔ اس لیے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے سورۂ بقرہ کی آیت (۲۱) : ﴿ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ﴾ کی تفسیر فرمائی : ’’أَيْ وَحِّدُوْا رَبَّكُمْ‘‘ ’’یعنی اپنے رب کو ایک مانو۔‘‘ (طبری بسند حسن) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ﴾ [ الأنبیاء : ۲۵ ] ’’اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔‘‘