وَفِي ثَمُودَ إِذْ قِيلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوا حَتَّىٰ حِينٍ
اور قوم ثمود کے واقعہ (١٧) میں بھی عبرت ہے، جب ان سے کہہ دیا گیا کہ تم لوگ ایک وقت مقرر تک لطف اندوزی کر لو
وَ فِيْ ثَمُوْدَ اِذْ قِيْلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰى حِيْنٍ ....: اس کی تفسیر میں دو قول ہیں، ایک یہ کہ جب انھوں نے اونٹنی کو کاٹ دیا تو ان سے کہا گیا کہ تین دن تک خوب فائدہ اٹھا لو، اس کے بعد تم پر عذاب آ جائے گا۔ ان تین دنوں میں وہ تائب ہو سکتے تھے، مگر وہ اپنی سرکشی پر اور صالح علیہ السلام کی تکذیب پر اڑے رہے، تو تیسرے دن ان کے دیکھتے دیکھتے ایک ہولناک چیخ بلند ہوئی (ہود : ۶۷) جس کے ساتھ نہایت خوفناک کڑک والی بجلی گری، جس نے انھیں بھسم کر دیا اور وہ اس طرح نیست و نابود ہوئے جیسے کبھی ان کا وجود ہی نہ تھا۔ فرمایا : ﴿كَاَنْ لَّمْ يَغْنَوْا فِيْهَا ﴾ [ ھود : ۶۸ ] ’’جیسے وہ ان میں رہے ہی نہ تھے۔‘‘ دوسرا قول یہ ہے کہ اس ’’تَمَتَّعُوْا حَتّٰى حِيْنٍ ‘‘ (ایک وقت تک خوب فائدہ اٹھا لو) کہنے سے مراد صالح علیہ السلام کا ان کی طرف مبعوث ہونے کے وقت کا خطاب ہے کہ دنیا میں تمھیں موت تک مہلت ہے، اس میں خوب فائدہ اٹھا لو، مگر اس اونٹنی کو نقصان نہ پہنچانا ورنہ تم پر عذاب آ جائے گا، مگر انھوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور اونٹنی کو کاٹ دیا تو انھیں صاعقہ نے پکڑ لیا۔ آیت کے الفاظ میں دونوں معنوں کی گنجائش ہے اور دونوں بیک وقت بھی مراد ہو سکتے ہیں۔