فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ وَهُوَ مُلِيمٌ
پس ہم نے اسے اور اس کی فوجوں کو پکڑ لیا (١٥) پھر ان سب کو سمندر میں پھینک دیا، درانحالیکہ فرعون قابل ملامت تھا
فَاَخَذْنٰهُ وَ جُنُوْدَهٗ فَنَبَذْنٰهُمْ فِي الْيَمِّ ....: ’’أَلَامَ يُلِيْمُ‘‘ (افعال) ایسا کام کرنا جس پر ملامت کی جائے۔ ’’ مُلِيْمٌ ‘‘ مستحق ملامت، ایسا کام کرنے والا جس پر اسے ملامت کی جائے۔ یعنی وہ ایسا ظالم و سرکش تھا کہ اس کے سمندر میں لشکر سمیت غرق ہونے پر کسی نے اس کے حق میں کوئی کلمۂ خیر نہیں کہا، بلکہ ہر شخص کے منہ سے اس کے لیے ملامت اور پھٹکار ہی نکلی، جس نے سنا یہی کہا کہ ان کے ساتھ ایسے ہی ہونا چاہیے تھا۔ خس کم جہاں پاک۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ﴾ [ الدخان : ۲۹] ’’پھر نہ آسمان ان پر رویا نہ زمین۔‘‘ سمندر میں پھینکے جانے کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ یونس (۹۰ تا ۹۲)، طٰہٰ (۷۷، 78) اور شعراء (۵۲ تا ۶۷)۔