سورة الذاريات - آیت 26

فَرَاغَ إِلَىٰ أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پھر خاموشی کے ساتھ اپنے گھر والوں کے پاس دوڑ کر گئے، پھر ایک بھنا ہوا موٹا بچھڑا لے کر آئے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَرَاغَ اِلٰى اَهْلِهٖ: ’’رَاغَ يَرُوْغُ رَوْغًا‘‘ (ن) کا معنی خفیہ طور پر جانا، حیلے کے ساتھ تیزی سے نکل جانا ہے۔ یہ ’’رَوْغَانُ الثَّعْلَبِ‘‘ سے ہے، لومڑی کا خفیہ طریقے سے آنا جانا۔ مطلب یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام کرنے کے لیے خاموشی سے گئے، تاکہ انھیں خبر نہ ہو سکے اور وہ جاتے ہوئے دیکھ کر مہمانی لانے سے منع نہ کر دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مہمانوں سے پوچھنا کہ کیا آپ کھانا کھائیں گے تو ایک طرف، انھیں تو مہمانی کے اہتمام کا حتیٰ الوسع پتا بھی نہیں لگنے دینا چاہیے۔ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِيْنٍ: سورۂ ہود میں ’’ بِعِجْلٍ حَنِيْدٍ ‘‘ (بھنا ہوا بچھڑا) آیا ہے۔ معلوم ہوا موٹا تازہ بچھڑا بھون کر لائے تھے۔ بعض مفسرین نے ’’ سَمِيْنٍ‘‘ کا معنی ’’گھی میں تلا ہوا‘‘ کیا ہے، کیونکہ ’’سمن ‘‘ کا معنی موٹاپا بھی ہے اور گھی بھی۔ اس کے مطابق ’’ سَمِيْنٍ ‘‘ کا معنی موٹا بھی ہو سکتا ہے اور گھی میں تلا ہوا بھی۔ مگر ’’ حَنِيْدٍ ‘‘ کے ساتھ ’’ سَمِيْنٍ ‘‘ کا معنی ’’موٹا‘‘ زیادہ مناسب ہے، کیونکہ ’’ حَنِيْدٍ ‘‘ گرم پتھروں یا کوئلے پر بھنے ہوئے کو کہتے ہیں۔