سورة الذاريات - آیت 17

كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

وہ راتوں میں کم سوتے تھے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ: ’’هَجَعَ يَهْجَعُ هُجُوْعًا‘‘ (ف) سونا، رات کا سونا، ہلکا سا سونا، تینوں معنوں میں آتا ہے۔ ’’ مَا يَهْجَعُوْنَ ‘‘ کے دو معنی کیے گئے ہیں، ایک یہ کہ ’’ مَا ‘‘ مصدریہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ رات میں سے بہت تھوڑا حصہ سوتے تھے۔ ابن کثیر نے یہ مطلب احنف بن قیس، حسن بصری اور زہری سے نقل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ مزمل میں فرمایا : ﴿ يٰاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ (1) قُمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا (2) نِّصْفَهٗ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيْلًا (3) اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا ﴾ [ المزمل : ۱ تا ۴ ] ’’اے کپڑے میں لپٹنے والے! رات کو قیام کر مگر تھوڑا۔ آدھی رات (قیام کر)، یا اس سے تھوڑا کم کر لے۔ یا اس سے زیادہ کرلے اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھ۔‘‘ ان آیات کے نازل ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ میں سے کچھ لوگ ایک سال تک اس پر عمل کرتے رہے، پھر اللہ تعالیٰ نے سورۂ مزمل کا آخری حصہ نازل کیا، جس میں فرمایا : ﴿ اِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ اَنَّكَ تَقُوْمُ اَدْنٰى مِنْ ثُلُثَيِ الَّيْلِ وَ نِصْفَهٗ وَ ثُلُثَهٗ وَ طَآىِٕفَةٌ مِّنَ الَّذِيْنَ مَعَكَ وَ اللّٰهُ يُقَدِّرُ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ عَلِمَ اَنْ سَيَكُوْنُ مِنْكُمْ مَّرْضٰى وَ اٰخَرُوْنَ يَضْرِبُوْنَ فِي الْاَرْضِ يَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَ اٰخَرُوْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ ﴾ [ المزمل : ۲۰ ] ’’بلاشبہ تیرا رب جانتا ہے کہ تو رات کے دو تہائی کے قریب اور اس کا نصف اور اس کا تیسرا حصہ قیام کرتا ہے اور ان لوگوں کی ایک جماعت بھی جو تیرے ساتھ ہیں اور اللہ رات اور دن کا اندازہ رکھتا ہے۔ اس نے جان لیا کہ تم ہرگز اس کی طاقت نہیں رکھو گے، سو اس نے تم پر مہربانی فرمائی تو قرآن میں سے جو میسر ہو پڑھو، اس نے جان لیا کہ یقیناً تم میں سے کچھ بیمار ہوں گے اور کچھ دوسرے زمین میں سفر کریں گے، اللہ کا فضل تلاش کریں گے اور کچھ دوسرے اللہ کی راہ میں لڑیں گے، پس اس میں سے جو میسر ہو پڑھو۔‘‘ تو صحیح مسلم (۷۴۶) میں مذکور عائشہ رضی اللہ عنھا کی حدیث کے مطابق قیام اللیل جو فرض تھا، نفل ہو گیا اور اس میں تخفیف ہو گئی اور رات کے اکثر حصے کے بجائے حکم ہوا : ﴿ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ﴾ کہ جتنا قیام آسانی سے کر سکتے ہو کر لو۔ اس آیت کی تفسیر اور قیام اللیل کی فضیلت کے لیے سورۂ مزمل کی ابتدائی اور آخری آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ ’’ كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ ‘‘ کا مطلب اگر یہ کیا جائے کہ جنت میں وہ متقی جائیں گے جو رات کا تھوڑا حصہ سوتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دائمی عمل سے اس مطلب کی تائید نہیں ہوتی۔ ہاں مندرجہ ذیل حدیث کو سامنے رکھا جائے تو ’’ مَا يَهْجَعُوْنَ ‘‘ کا یہ مطلب بالکل درست ہے۔ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : (( مَنْ صَلَّی الْعِشَاءَ فِيْ جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّيْلِ، وَ مَنْ صَلَّی الصُّبْحَ فِيْ جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا صَلَّی اللَّيْلَ كُلَّهُ )) [ مسلم، المساجد و مواضع الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العشاء والصبح في جماعۃ : ۶۵۶ ] ’’جو شخص عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو گویا اس نے نصف رات قیام کیا اور جو شخص صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو گویا اس نے ساری رات قیام کیا۔‘‘ مزید بحث سورۂ سجدہ کی آیت (۱۶) : ﴿ تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ﴾ کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ ’’ مَا يَهْجَعُوْنَ ‘‘ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اس میں ’’ مَا ‘‘ نافیہ ہے۔ ابن کثیر نے یہ مطلب ابن عباس، مطرف بن عبد اللہ اور مجاہد سے نقل فرمایا ہے اور تفسیر ابن کثیر کے محقق دکتور حکمت بن بشیر نے طبری اور دوسری کتابوں میں مذکور ان کی سندوں کو حسن یا صحیح قرار دیا ہے۔ انس رضی اللہ عنہ اور ابوجعفر باقر کے اقوال بھی اسی پر مبنی ہیں کہ ’’ مَا ‘‘ نافیہ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا : (( لَمْ تَكُنْ تَمْضِيْ عَلَيْهِمْ لَيْلَةٌ إِلاَّ يَأْخُذُوْنَ مِنْهَا وَ لَوْ شَيْئًا )) [ ابن کثیر :7؍417] ’’یعنی ان پر جو رات بھی گزرتی تھی اس میں سے کچھ نہ کچھ حصہ لیتے تھے خواہ تھوڑا ہی ہو۔‘‘ مطرف بن عبد اللہ نے فرمایا : ’’ قَلَّ لَيْلَةٌ لاَ تَأْتِيْ عَلَيْهِمْ إِلاَّ يُصَلُّوْنَ فِيْهَا لِلّٰهِ عَزَّوَجَلَّ، إِمَّا مِنْ أَوَّلِهَا وَ إِمَّا مِنْ أَوْسَطِهَا ‘‘ [ ابن کثیر :7؍417] ’’ان پر کم ہی کوئی رات آتی تھی مگر وہ اس میں اللہ عز و جل کے لیے نماز پڑھتے تھے، یا اس کے شروع میں یا اس کے درمیان میں۔‘‘ مجاہد نے فرمایا : ’’ قَلَّ مَا يَرْقُدُوْنَ لَيْلَةً حَتَّي الصِّبَاحَ لاَ يَتَهَجَّدُوْنَ ‘‘ [ ابن کثیر :7؍417 ] ’’کم ہی کوئی رات ہوتی تھی جس میں وہ صبح تک سوئے رہیں اور تہجد نہ پڑھیں۔‘‘ انس بن مالک اور ابوالعالیہ نے فرمایا : ’’ كَانُوْا يُصَلُّوْنَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ‘‘ [ ابن کثیر : ۷؍۴۱۷ ] ’’وہ مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھتے تھے۔‘‘ اور ابوجعفر باقر نے فرمایا : ’’ كَانُوْا لاَ يَنَامُوْنَ حَتّٰي يُصَلُّوا الْعَتَمَةَ ‘‘ [ ابن کثیر :7؍417] ’’وہ جب تک عشاء نہ پڑھ لیتے سوتے نہیں تھے۔‘‘ ’’ مَا يَهْجَعُوْنَ ‘‘ میں ’’ مَا ‘‘ کو نافیہ ماننے کی صورت میں ترجمہ ہو گا ’’وہ سوتے نہیں تھے‘‘ یعنی جاگتے تھے۔ اس کے مطابق آیت کا ترجمہ، تفسیر اور اس پر حاشیہ تفسیر ثنائی سے نقل کیے جاتے ہیں۔ ترجمہ ہے : ’’یہ لوگ راتوں کو کسی قدر جاگا کرتے اور صبح کے وقت خدا سے بخشش مانگا کرتے تھے۔‘‘ تفسیر ہے : ’’ان کی نیکی کا نمونہ یہ ہے کہ یہ لوگ راتوں کو بغرض عبادت کسی قدر جاگا کرتے اور تہجد کے بعد یا شب خیزی کے بعد صبح کے وقت خدا سے بخشش مانگا کرتے تھے۔ یعنی صبح سے پہلے تھوڑی رات رہتے اٹھتے تھے اور خدا کی یاد جتنی بھی ہو سکے کرکے صبح سویرے اپنے لیے اور اپنے ماں باپ کے لیے بلکہ جملہ مومنین کے لیے استغفار کرتے تھے۔‘‘ حاشیہ ہے : ’’ مَا يَهْجَعُوْنَ ‘‘ میں دو لفظ ہیں۔ ’’هَجَعَ‘‘ کے معنی ہیں رات کی نیند۔ قاموس میں ہے : ’’ اَلْهُجُوْعُ النَّوْمُ لَيْلًا۔‘‘ ’’ مَا ‘‘ نافیہ ہے، پس معنی یہ ہیں ’’رات کو تھوڑا سا وقت نیند ترک کر دیتے تھے۔‘‘ وہ تھوڑا سا وقت چاہے نماز تہجد کا ہو، جیسے سورۂ بنی اسرائیل میں ہے : ﴿ وَ مِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ ﴾ [ بني إسرائیل : ۷۹ ] یا نماز عشاء کا ہو، جیسے ﴿ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ﴾ [ ھود : ۱۱۴ ] میں ’’ زُلَفًا ‘‘ سے مراد عشاء کی نماز ہے، ممکن ہے یہی مراد ’’ مَا يَهْجَعُوْنَ ‘‘ سے ہو۔ (واللہ اعلم)‘‘ (ثنائی) معارف القرآن میں ہے : ’’ ﴿كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ ﴾ میں ’’ يَهْجَعُوْنَ ‘‘ ’’هُجُوْعٌ‘‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی رات کو سونے کے آتے ہیں۔ اس میں مومنین متقین کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ رات کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارتے ہیں، سوتے کم ہیں، جاگتے زیادہ ہیں اور یہ وقت نماز و عبادت میں گزارتے ہیں۔ یہ تفسیر ابن جریر نے اختیار کی ہے اور حسن بصری سے یہی منقول ہے کہ متقین حضرات رات کو جاگنے اور عبادت کرنے کی مشقت اٹھاتے ہیں اور بہت کم سوتے ہیں۔ اور ابن عباس اور قتادہ وغیرہ ائمۂ تفسیر نے اس جملے کا مطلب حرفِ ’’ مَا ‘‘ کو اس میں نفی کے لیے قرار دے کر یہ بتلایا ہے کہ ’’رات کو تھوڑا سا حصہ ان پر ایسا بھی آتا ہے جس میں وہ سوتے نہیں، بلکہ عبادت و نماز وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں۔ اس مفہوم کے اعتبار سے وہ سب لوگ اس کا مصداق ہو جاتے ہیں جو رات کے کسی بھی حصہ میں عبادت کر لیں، خواہ شروع میں یا آخر میں یا درمیان میں۔ اسی لیے انس اور ابوالعالیہ نے اس کا مصداق ان لوگوں کو قرار دیا جو مغرب و عشاء کے درمیان نماز پڑھتے ہیں اور امام ابوجعفر باقر نے فرمایا کہ جو لوگ عشاء کی نماز سے پہلے نہ سوویں وہ بھی اس میں داخل ہیں۔ (ابن کثیر)‘‘