أَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ ۚ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ
کیا ہم انسانوں کی پہلی تخلیق (٩) سے تھک گئے تھے، بلکہ وہ اپنی نئی (دوبارہ) تخلیق کے بارے میں شبہ میں مبتلا ہیں
1۔ اَفَعَيِيْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ: یہ خلاصہ اور نتیجہ ہے اس دلیل کا جس کی تفصیل سورت کے شروع سے آ رہی ہے کہ جب ہم نے اس وقت جب کچھ بھی نہیں تھا آسمان و زمین، بارش اور اوپر مذکور تمام چیزیں پیدا کر لیں اور ہمیں ان کے پیدا کرنے سے کوئی تھکاوٹ لاحق نہیں ہوئی تو کیا یہ بے چارہ انسان ضعیف البنیان ہی ایسی مخلوق ہے جسے پہلی دفعہ پیدا کرکے ہم تھک گئے ہیں اور اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکتے، حالانکہ ہمارا تخلیق کا عمل مسلسل جاری ہے اور دوبارہ زندگی تو پہلی دفعہ کے مقابلے میں معمولی بات ہے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے مختلف انداز سے کئی جگہ بیان فرمائی ہے، دیکھیے سورۂ روم (۲۷)، یٰس (۷۸، ۷۹)، نازعات (۲۷) اور سورۂ ق (۳۸)۔ 2۔ بَلْ هُمْ فِيْ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ: یعنی یہ اس چیز کے منکر نہیں ہیں کہ ان کو پہلی بار ہم نے ہی پیدا کیا اور یہ کہ پہلی بار پیدا کرکے ہم تھک کر نہیں رہ گئے، لیکن اس کے باوجود انھیں شک ہے کہ ہم دوبارہ بھی پیدا کر سکیں گے یا نہیں، حالانکہ معمولی غور و فکر سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ اگر ہمیں دشواری پیش آتی تو پہلی دفعہ آتی، دوسری بار پیدا کرنے کا کام تو پہلی بار کی بہ نسبت کہیں آسان ہے۔