إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
بے شک مومنین آپس میں بھائی (٨) ہیں، پس تم لوگ اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے
1۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ : لڑائی سے باز رکھنے کا سب سے مؤثر ذریعہ لڑنے والوں کو قرابت کا احساس دلانا ہے کہ دیکھو تم کس سے لڑ رہے ہو؟ اپنے ہی بھائی سے، یہ کتنی بری بات ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کی دینی قرابت کا احساس دلایا، جو نسبی قرابت سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔ اسلام کی آمد سے پہلے جو لوگ نسبی قرابت کے باوجود ایک دوسرے کے شدید دشمن تھے، جیسا کہ اوس اور خزرج کا معاملہ تھا، اللہ کی نعمت سے اسلام کی بدولت بھائی بھائی بن گئے۔ (دیکھیے آل عمران :۱۰۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ، وَلاَ يُسْلِمُهُ )) [ بخاري، المظالم، باب لا یظلم المسلم المسلم ولایسلمہ : ۲۴۴۲، عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنھما ] ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔‘‘ 2۔ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ: ’’أَخٌ‘‘ کا تثنیہ ’’أَخَوَانِ‘‘ اور ’’أَخَوَيْنِ‘‘ ہے جو ’’كُمْ‘‘ کی طرف مضاف ہوا تو نون اعرابی گر گیا اور ’’أَخَوَيْ‘‘ باقی رہا جو ’’كُمْ‘‘ کے ساتھ مل کر ’’ اَخَوَيْكُمْ ‘‘ ہو گیا، سو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروا دو، وہ دو خواہ ایک ایک فرد ہوں یا ایک ایک جماعت ہوں۔ 3۔ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ: یعنی صلح کرواتے وقت اس بات کو ملحوظ رکھو کہ تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروا رہے ہو، جن کا تمھارے ساتھ بھی اخوت کا رشتہ ہے۔ لہٰذا اس رشتے کا خیال رکھو اور پوری طرح عدل و انصاف کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس طرح صلح کرواؤ کہ نہ کسی فریق کی حق تلفی ہو اور نہ کسی پر زیادتی ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرتے ہوئے یہ فریضہ سرانجام دو گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے گا۔ ’’لَعَلَّ‘‘ کا لفظ امید دلانے کے لیے ہوتا ہے، مگر بڑے لوگوں کے کلام میں اس سے یقین حاصل ہوتا ہے، کیونکہ امید دلا کر اسے پورا نہ کرنا ان کی شان کے لائق نہیں ہوتا۔ پھر جو شاہوں کا شاہ اور ساری کائنات کا مالک ہے وہ امید دلائے تو اس کے یقینی ہونے میں کیا شبہ ہے؟ اس کے علاوہ ’’لَعَلَّ‘‘ کا لفظ ’’تاکہ‘‘ کے معنی میں بھی آتا ہے۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کا رحم انھی لوگوں پر ہوتا ہے جو اس سے ڈرتے ہیں، اس لیے بھائیوں کے درمیان صلح کرواتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور عدل کے ساتھ صلح کرواؤ، تاکہ تم پر اللہ کا رحم ہو۔ 4۔ یہ آیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک برادری میں منسلک کر دیتی ہے۔ مسلمان خواہ دنیا کے کسی دوسرے کونے میں ہو، دوسرے سب مسلمان اسے بھائی سمجھتے ہیں۔ اسلام کے سوا ایسا رشتہ اور کہیں نہیں پایا جاتا۔ (کیلانی)