إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
) بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے (٤) ہیں، ان میں اکثر لوگ بے عقل ہیں
1۔ اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ: ’’حُجْرَةٌ ‘‘ زمین کا وہ قطعہ جس کے گرد دیوار بنی ہوئی ہو، گھر کے صحن کی چار دیواری۔ طبری نے فرمایا: ’’حُجْرَةٌ ‘‘ کی جمع ’’حُجَرٌ‘‘ ہے اور اس کی جمع ’’حُجُرَاتٌ‘‘ ہے۔‘‘ روح المعانی میں ان حجرات کی کیفیت بیان کی گئی ہے : ’’یہ نو حجرے تھے، ہر بیوی کے پاس ایک حجرہ تھا اور جیسا کہ ابن سعد نے عطاء خراسانی سے روایت کی ہے، یہ کھجور کی ٹہنیوں سے بنے ہوئے تھے، ان کے دروازوں پر سیاہ بالوں کے ٹاٹ کے پردے تھے۔ بخاری نے ’’الادب المفرد‘‘ میں اور ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے داؤد بن قیس سے بیان کیا ہے، انھوں نے فرمایا: ’’میں نے وہ حجرے دیکھے ہیں، کھجور کی ٹہنیوں سے بنے ہوئے تھے، جنھیں باہر کی جانب سے بالوں کے ٹاٹوں سے ڈھانپا ہوا تھا اور میرا گمان ہے کہ صحن کے دروازے سے کمرے کے دروازے تک چھ یا سات ہاتھ (نو یا ساڑھے دس فٹ) کا فاصلہ تھا اور کمرے کا اندرونی حصہ دس ہاتھ (پندرہ فٹ) تھا اور میرا گمان ہے کہ گھر کی چوڑائی سات آٹھ ہاتھ (ساڑھے دس بارہ فٹ) کے درمیان تھی۔‘‘ اور حسن سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : ’’میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے کمروں میں جایا کرتا تھا تو ان کی چھت کو ہاتھ لگا لیتا تھا۔ ولید بن عبد الملک رحمہ اللہ کے عہد میں ان کے حکم سے ان گھروں کو مسجد نبوی میں شامل کر دیا گیا جس پر لوگ بہت روئے۔‘‘ اور سعید بن مسیب نے فرمایا : ’’اللہ کی قسم! مجھے پسند تھا کہ ان حجروں کو ان کی حالت پر رہنے دیا جاتا، تاکہ اہلِ مدینہ کے بچے بڑے ہوتے اور تمام دنیا سے آنے والے آتے تو دیکھتے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کیسے گھروں پر اکتفا کیا ہے۔ اس سے ان کے دلوں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی حرص اور اس پر فخر کے بجائے زہد اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی۔‘‘ اور ابوامامہ بن سہل بن حنیف نے بھی ایسی ہی بات فرمائی۔‘‘ (روح المعانی) گزشتہ آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں آپ کے ادب کا بیان تھا، ان آیات میں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کو ملحوظ رکھنے کا بیان ہے جب آپ گھر میں ہوں۔ آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ کچھ اعرابی لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کی چار دیواری کے باہر کھڑے ہو کر آپ کو بلانے کے لیے آوازیں دیں، تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو ’’ لَا يَعْقِلُوْنَ ‘‘ قرار دیا۔ ’’ لَا يَعْقِلُوْنَ ‘‘ قرار دینے سے مقصود انھیں ڈانٹنا اور تمام مسلمانوں کو آپ کے ادب کی تعلیم دینا ہے۔ 2۔ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ: ابن جزی (صاحب التسہیل) نے فرمایا: ’’اس میں دو وجہیں ہیں، ایک یہ کہ ان میں کچھ لوگ عقل رکھنے والے بھی تھے، اس لیے ان کے اکثر کو ’’ لَا يَعْقِلُوْنَ ‘‘ فرمایا، سب کو نہیں۔ دوسری یہ کہ مراد سب ہی کو ’’ لَا يَعْقِلُوْنَ ‘‘ قرار دینا ہے، عقل والوں کو کم قرار دینے سے مراد ان کی نفی ہے۔ الفاظ کے مطابق پہلی وجہ زیادہ ظاہر ہے، دوسری میں زیادہ بلیغ طریقے سے سب کی مذمت کا بیان ہے۔‘‘