سورة الفتح - آیت 27

لَّقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اللہ نے اپنے رسول کا برحق خواب (١٨) سچ کردکھایا، اگر اللہ نے چاہا تو تم یقیناً مسجد حرام میں داخل ہوگے، درانحالیکہ تم امن میں ہوگے، اپنے سروں کے بال منڈائے یا کٹائے ہوگے، تم خوف زدہ نہیں ہوگے، پس اسے وہ معلوم تھا جو تم نہیں جانتے تھے، چنانچہ اس نے اس سے پہلے تمہیں ایک قریب کی فتح عطا کی

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لَقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْيَا بِالْحَقِّ: اس کی ترکیب دو طرح سے کی جاتی ہے، ایک یہ کہ ’’صَدَقَ اللّٰهُ‘‘ فعل اور فاعل ہے، ’’رَسُوْلَهُ ‘‘ اس کا مفعول بہ ہے اور ’’ الرُّءْيَا‘‘ سے پہلے حرف جار ’’فِيْ‘‘ محذوف ہے، جس کے حذف کی وجہ سے ’’ الرُّءْيَا ‘‘ منصوب ہے، اسے منصوب بنزع الخافض کہتے ہیں : ’’أَيْ فِي الرُّؤْيَا۔‘‘ ترجمہ اسی ترکیب کے مطابق کیا گیا ہے کہ بلاشبہ یقیناً اللہ نے اپنے رسول کو خواب میں حق کے ساتھ سچی خبر دی یا سچ کہا۔ اس کی مثال یہ آیت ہے : ﴿ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ ﴾ [الأحزاب: ۲۳] ’’أَيْ فِيْ مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ‘‘ ’’مومنوں میں سے کچھ مرد ایسے ہیں جنھوں نے اس بات میں سچ کہا جس پر انھوں نے اللہ سے عہد کیا۔‘‘ دوسری ترکیب یہ ہے کہ ’’ صَدَقَ اللّٰهُ ‘‘ فعل و فاعل ہے، ’’ رَسُوْلَهُ ‘‘ پہلا مفعول ہے اور ’’ الرُّءْيَا ‘‘ دوسرا مفعول ہے۔ یعنی بلاشبہ یقیناً اللہ نے اپنے رسول کو حق کے ساتھ سچا خواب دکھایا۔ اس صورت میں ’’ صَدَقَ ‘‘ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہو گا۔ ’’ بِالْحَقِّ ‘‘ کا مطلب ہے واقع کے عین مطابق۔ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ....: حدیبیہ روانہ ہونے سے پہلے مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سمیت امن و اطمینان کے ساتھ کسی خوف کے بغیر مکہ میں داخل ہوتے ہیں، بیت اللہ کا طواف اور عمرہ کے دوسرے ارکان ادا کر رہے ہیں، پھر کوئی سر منڈوا رہا ہے اور کوئی کتروا رہا ہے۔ پیغمبر کا خواب چونکہ وحی ہوتا ہے اور کسی صورت جھوٹا نہیں ہو سکتا، اس لیے مسلمان بہت خوش ہوئے اور عموماً انھوں نے سمجھا کہ اسی سال مکہ میں داخلہ ہو گا، مگر جب مکہ میں داخل ہوئے بغیر حدیبیہ سے واپس پلٹے تو بعض صحابہ کے دلوں میں اس کے متعلق کچھ تردّد پیدا ہوا کہ خواب پورا نہیں ہوا۔ تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کرکے واضح فرمایا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خواب ہم نے دکھایا اور یہ بالکل سچ ہے جو یقیناً پورا ہو گا۔ چنانچہ اس کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگلے سال مکہ معظمہ میں داخل ہوئے اور امن و اطمینان کے ساتھ عمرہ ادا کرکے واپس آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ خود خواب میں اس کے پورا ہونے کا وقت نہیں بتایا گیا تھا، جب کہ خواب کی تعبیر بعض اوقات کئی سال بعد جا کر ظاہر ہوتی ہے، جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھنے کے کئی سال بعد والدین اور بھائیوں کے مصر میں آنے پر کہا: ﴿ يٰاَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّيْ حَقًّا ﴾ [ یوسف : ۱۰۰ ] ’’اے میرے باپ! یہ میرے پہلے کے خواب کی تعبیر ہے، بے شک میرے رب نے اسے سچا کر دیا۔‘‘ یہاں بعض مسلمانوں نے اپنے طور پر سمجھ لیا تھا کہ اسی سال مکہ معظمہ میں داخلہ ہو گا۔ چنانچہ صحیح بخاری کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ جب صلح طے ہو چکی، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (( فَأَتَيْتُ نَبِيَّ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ أَلَسْتَ نَبِيَّ اللّٰهِ حَقًّا؟ قَالَ بَلٰی، قُلْتُ أَلَسْنَا عَلَی الْحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَی الْبَاطِلِ؟ قَالَ بَلٰی، قُلْتُ فَلِمَ نُعْطَی الدَّنِيَّةَ فِيْ دِيْنِنَا إِذًا؟ قَالَ إِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ، وَلَسْتُ أَعْصِيْهِ وَهُوَ نَاصِرِيْ، قُلْتُ أَوَ لَيْسَ كُنْتَ تُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِي الْبَيْتَ فَنَطُوْفُ بِهٖ؟ قَالَ بَلٰی، فَأَخْبَرْتُكَ أَنَّا نَأْتِيْهِ الْعَامَ؟ قَالَ قُلْتُ لاَ، قَالَ فَإِنَّكَ آتِيْهِ وَمُطَّوِّفٌ بِهٖ، قَالَ فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ يَا أَبَا بَكْرٍ! أَلَيْسَ هٰذَا نَبِيَّ اللّٰهِ حَقًّا ؟ قَالَ بَلٰی، قُلْتُ أَلَسْنَا عَلَی الْحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَی الْبَاطِلِ ؟ قَالَ بَلٰی قُلْتُ فَلِمَ نُعْطَی الدَّنِيَّةَ فِيْ دِيْنِنَا إِذًا ؟ قَالَ أَيُّهَا الرَّجُلُ! إِنَّهُ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ يَعْصِيْ رَبَّهُ وَهُوَ نَاصِرُهُ ، فَاسْتَمْسِكْ بِغَرْزِهِ، فَوَاللّٰهِ ! إِنَّهُ عَلَی الْحَقِّ، قُلْتُ أَلَيْسَ كَانَ يُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِي الْبَيْتَ وَنَطُوْفُ بِهٖ ؟ قَالَ بَلٰی، أَفَأَخْبَرَكَ أَنَّكَ تَأْتِيْهِ الْعَامَ؟ قُلْتُ لاَ، قَالَ فَإِنَّكَ آتِيْهِ وَمُطَّوِّفٌ بِهٖ، قَالَ الزُّهْرِيُّ قَالَ عُمَرُ فَعَمِلْتُ لِذٰلِكَ أَعْمَالاً )) [بخاري، الشروط، باب الشروط في الجہاد....: ۲۷۳۱،۲۷۳۲ ] ’’تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں نے کہا، کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا : ’’کیوں نہیں!‘‘ میں نے کہا : ’’کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں؟‘‘ فرمایا : ’’کیوں نہیں!‘‘ میں نے کہا: ’’تو ایسے میں ہمیں اپنے دین میں ذلت کی بات کیوں قبول کروائی جاتی ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یقیناً میں اللہ کا رسول ہوں اور میں اس کی نافرمانی نہیں کرتا اور وہ میری مدد کرنے والا ہے۔‘‘ میں نے کہا : ’’کیا آپ ہمیں بیان نہیں کیا کرتے تھے کہ ہم بیت اللہ میں جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو کیا میں نے تمھیں یہ بتایا تھا کہ ہم اسی سال اس میں جائیں گے؟‘‘ میں نے کہا : ’’نہیں!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم یقیناً اس میں جانے والے اور اس کا طواف کرنے والے ہو۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، پھر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، میں نے کہا : ’’اے ابوبکر! کیا یہ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’کیوں نہیں!‘‘ میں نے کہا: ’’کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں؟‘‘ کہا : ’’کیوں نہیں!‘‘ میں نے کہا : ’’تو پھر ہمیں اپنے دین میں ذلت کی بات کیوں قبول کروائی جاتی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’اے (اللہ کے) بندے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً اللہ کے رسول ہیں اور آپ اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ آپ کی مدد کرنے والا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔‘‘ میں نے کہا: ’’کیا آپ ہمیں بیان نہیں کیا کرتے تھے کہ ہم بیت اللہ میں جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھیں بتایا تھا کہ تم اسی سال وہاں جاؤ گے؟‘‘ میں نے کہا : ’’نہیں!‘‘ انھوں نے کہا : ’’تو تم یقیناً اس میں جاؤ گے اور اس کا طواف کرو گے۔‘‘ زہری کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’پھر میں نے اس (جلد بازی کے کفارے) کے لیے کئی اعمال کیے۔‘‘ صحیح بخاری میں ایک اور جگہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے عمر رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہ گفتگو اور ان کا یہی جواب مروی ہے، اس کے آخر میں ہے : (( فَنَزَلَتْ سُوْرَةُ الْفَتْحِ فَقَرَأَهَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلٰی عُمَرَ إِلٰی آخِرِهَا، فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ! أَوَ فَتْحٌ هُوَ؟ قَالَ نَعَمْ )) [بخاري، الجزیۃ والموادعۃ، باب إثم من عاھد ثم غدر:۳۱۸۲] ’’اس موقع پر سورۂ فتح اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو یہ سورت آخر تک پڑھ کر سنائی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’اے اللہ کے رسول! کیا یہ فتح ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہاں (یہ فتح ہے)۔‘‘ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ: یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ ’’ان شاء الله ‘‘ تو استثنا کے لیے کہا جاتا ہے کہ اگر اللہ نے چاہا تو یہ کام ہو جائے گا ورنہ نہیں، حتیٰ کہ قسم کے بعد اگر ’’ان شاء الله ‘‘ کہہ لیا جائے تو قسم بھی واقع نہیں ہوتی، کیونکہ اس میں جزم اور پختگی نہیں ہوتی، جبکہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں شک یا استثنا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو یہاں ’’اِنْ شَآءَ اللّٰهُ ‘‘ کہنے کا کیا مطلب ہے؟ اہلِ علم نے اس کے کئی جواب دیے ہیں۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’یہ ’’اِنْ شَآءَ اللّٰهُ‘‘ اس خبر کی تاکید اور اس کا یقین دلانے کے لیے ہے، استثنا کے لیے کسی طرح بھی نہیں۔‘‘ (ابن کثیر) ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تاتاریوں کے مقابلے پر مسلمانوں کو ان کی فتح کا یقین دلاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی اور ان شاء اللہ کہا، ساتھ ہی فرمایا: ’’إِنْ شَاءَ اللّٰهُ تَحْقِيْقًا لَا تَعْلِيْقًا۔‘‘ ابن عاشور نے فرمایا: ’’إِنْ شَآءَ اللّٰهُ‘‘ کا ایک استعمال یہ ہے کہ یہ کسی چیز کے متعلق اس وقت بولا جاتا ہے جب وہ آئندہ دیر سے واقع ہونے والی ہو، جیسے کسی سے کہا جائے کہ یہ کام کر دو تو وہ کہے، میں ’’ان شاء الله ‘‘ یہ کام کر دوں گا۔ تو اس سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ وہ اس کام کو ابھی یا مستقبل قریب میں کرے گا بلکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اسے کچھ مدت بعد کرے گا، لیکن کرے گا ضرور۔‘‘ ابن جزی صاحب التسہیل کی بیان کردہ توجیہوں میں سے تین توجیہیں یہ ہیں، ایک یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو ادب سکھانے کے لیے ہے کہ وہ اپنے آئندہ ہر کام کے لیے ’’ان شاء اللہ ‘‘کہا کریں۔ (جیسا کہ سورۂ کہف (24،23) میں فرمایا : ﴿وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّيْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا (23) اِلَّا اَنْ يَّشَآءَ اللّٰهُ﴾ ) دوسری یہ کہ یہ استثنا ہر انسان کو الگ الگ پیشِ نظر رکھ کر کیا گیا ہے، کیونکہ ممکن ہے ان میں سے کوئی شخص اس داخلے سے پہلے فوت ہو جائے، یا بیمار ہونے کی وجہ سے نہ جا سکے۔ تیسری یہ کہ یہاں ’’ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ ‘‘ ’’إِذَا شَاءَ اللّٰهُ‘‘ کے معنی میں ہے کہ یقیناً تم مسجد حرام میں داخل ہو گے جب اللہ چاہے گا۔ آلوسی نے اس کی ایک مثال ’’ إِنَّا إِنْ شَاءَ اللّٰهُ بِكُمْ لَلَاحِقُوْنَ ‘‘ دی ہے۔ یہ تمام جواب ہی درست، پختہ اور مضبوط ہیں۔ اٰمِنِيْنَ مُحَلِّقِيْنَ: حج اور عمرہ میں احرام کھولنے پر سر منڈوایا یا کترایا جاتا ہے۔ ’’ مُحَلِّقِيْنَ ‘‘ کو پہلے لانے میں اس کے افضل ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈوانے والوں کے حق میں تین دفعہ دعا کی اور کتروانے والوں کے حق میں ایک دفعہ دعا کی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِيْنَ، قَالُوْا وَلِلْمُقَصِّرِيْنَ، قَالَ اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِيْنَ … قَالَهَا ثَلاَثًا قَالَ وَ لِلْمُقَصِّرِيْنَ )) [ بخاري، الحج، باب الحلق والتقصیر عند الإحلال: ۱۷۲۸ ] ’’اے اللہ ! منڈوانے والوں کو بخش دے۔‘‘ صحابہ نے کہا: ’’اور کتروانے والوں کو بھی۔‘‘ آپ نے فرمایا : ’’اے اللہ ! منڈوانے والوں کو بخش دے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کے بار بار سوال پر) تین دفعہ پہلی دعا ہی کی، پھر فرمایا : ’’اور کتروانے والوں کو بھی بخش دے۔‘‘ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَ مُقَصِّرِيْنَ: اپنے سروں کو منڈوانے والے اور کتروانے والے۔ ’’ رُءُوْسَكُمْ ‘‘ کا لفظ دلیل ہے کہ سر کو منڈوانا یا کتروانا ہے، ڈاڑھی کو نہیں۔ لَا تَخَافُوْنَ: یہاں ایک سوال ہے کہ ’’ اٰمِنِيْنَ ‘‘ ان لوگوں کو کہتے ہیں جنھیں کوئی خوف نہ ہو، پھر ’’ لَا تَخَافُوْنَ ‘‘ دوبارہ لانے کی کیا ضرورت تھی؟ جواب یہ ہے کہ ’’ اٰمِنِيْنَ ‘‘ ’’ لَتَدْخُلُنَّ ‘‘ کی ضمیر سے حال ہے، یعنی تم داخلے کے وقت امن کی حالت میں ہو گے اور ’’ لَا تَخَافُوْنَ ‘‘ آئندہ کے لیے وعدہ ہے کہ آئندہ بھی تمھیں دشمن کے حملے یا اس کی کسی سازش کا خوف نہیں ہو گا۔ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا: یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں جو دکھایا تھا کہ تم ضرور مسجد حرام میں داخل ہو گے وغیرہ وہ بالکل سچ فرمایا تھا۔ تمھارے خیال میں یہ داخلہ اسی سال ہونا چاہیے تھا، مگر اُسے تمھارے اس سال مکہ میں داخل نہ ہونے میں وہ حکمتیں معلوم تھیں جو تم نہیں جانتے تھے۔ ان حکمتوں سے مراد کچھ وہ حکمتیں ہیں جن کا پیچھے ذکر ہوا، مثلاً صلح کی بدولت بے شمار لوگوں کا مسلمان ہونا، مکہ میں موجود ان مومن مردوں اور مومن عورتوں کو نقصان سے محفوظ رکھنا، جن کا مسلمانوں کو علم نہیں تھا، مکہ میں داخلے سے پہلے پہلے فتوحات اور غنائم کے ذریعے سے مسلمانوں کی مالی اور عددی حالت کو مستحکم کرنا وغیرہ اور کچھ وہ حکمتیں مراد ہیں جنھیں علیم و حکیم ہی جانتا ہے۔ فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ فَتْحًا قَرِيْبًا: تو اس نے تمھارے مکہ میں داخل ہونے اور بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے ایک قریب فتح رکھ دی۔ اس فتح قریب سے مراد بعض نے فتح خیبر لی ہے اور بعض نے صلح حدیبیہ۔ زیادہ درست یہی ہے کہ مراد صلح حدیبیہ ہے، کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا : (( يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! أَوَ فَتْحٌ هُوَ؟ )) ’’یا رسول اللہ! کیا وہ فتح ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( نَعَمْ )) ’’ہاں!‘‘ [مسلم، الجہاد و السیر، باب صلح الحدیبیۃ: ۱۷۸۵] جیسا کہ اس سے پہلے گزر چکا ہے اور ’’ اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ‘‘ سے مراد بھی یہی ہے۔ دونوں بھی مراد ہو سکتی ہیں، البتہ فتح مکہ مراد نہیں ہو سکتی، کیونکہ مکہ میں داخلہ اس فتح سے پہلے بھی ہونے والا تھا۔