وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا
اور اسی اللہ نے وادی مکہ میں ان کے ہاتھوں کو تم سے روک (١٥) دیا، اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دئیے، اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر غالب بنا دیا تھا، اور اللہ تمہارے کاموں کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے
1۔ وَ هُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ ....: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حدیبیہ میں تھے تو صلح کی بات چیت کے دوران اور صلح ہو جانے کے بعد بھی مشرکین نے کوششیں کیں کہ کسی طرح لڑائی چھڑ جائے اور صلح نہ ہو سکے۔ ان کے متعدد گروہ چھپ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے خلاف کارروائی کے لیے آئے، مگر کوئی نقصان نہ پہنچا سکے، بلکہ ہر مرتبہ مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ انھیں قتل بھی کیا جا سکتا تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں چھوڑ دیا، کیونکہ سزا دینے کی صورت میں جنگ ناگزیر ہو جاتی جب کہ مسلمانوں کی مصلحت صلح میں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے اس احسان کی یاد دہانی کروائی ہے۔ یہاں کفار کی ان کوششوں کے تین واقعات درج کیے جاتے ہیں : (1) سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہتا تھا، ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا، اس کی مالش کرتا، ان کی خدمت کرتا اور انھی کے ہاں کھانا کھایا کرتا تھا اور میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرتے ہوئے اپنا اہل و مال چھوڑ آیا تھا۔ پھر جب ہماری اور اہلِ مکہ کی صلح ہو گئی اور ہم ایک دوسرے سے ملنے جلنے لگے تو میں ایک درخت کے نیچے کانٹے وغیرہ صاف کرکے اس کے سائے میں لیٹ گیا۔ اہلِ مکہ میں سے چار مشرک میرے پاس آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بد زبانی کرنے لگے۔ میں ان سے نفرت کی وجہ سے ایک اور درخت کے نیچے چلا گیا اور وہ اپنا اسلحہ درخت کے ساتھ لٹکا کر لیٹ گئے۔ اسی دوران وادی کے نیچے سے کسی نے آواز دی : ’’او مہاجرو! ابن زُنیم کو قتل کر دیا گیا۔‘‘ میں نے اپنی تلوار لی اور ان چاروں پر حملہ کر دیا، وہ سوئے ہوئے تھے، میں نے ان کا اسلحہ لے کر اپنی مٹھی میں اکٹھا کر لیا اور ان سے کہا:’’قسم اس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو عزت بخشی ہے! تم میں سے جو بھی سر اٹھائے گا میں اس کا سر اڑا دوں گا جس میں اس کی آنکھیں ہیں۔‘‘ خیر میں انھیں ہانکتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا اور میرا چچا عامر عَبَلات میں سے ’’مِکرز‘‘ نامی ایک مشرک کو کھینچتا ہوا لایا۔ یہاں تک کہ ہم نے انھیں ستر (۷۰) مشرکین سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لا کھڑا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا : (( دَعُوْهُمْ يَكُنْ لَهُمْ بَدْءُ الْفُجُوْرِ وَ ثِنَاهُ )) ’’انھیں چھوڑ دو، تاکہ عہد شکنی کی ابتدا اور دہرائی انھی کے ذمے رہے۔‘‘ غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں معاف کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : ﴿ وَ هُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ﴾ [ الفتح : ۲۴ ] ’’اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے، اس کے بعد کہ تمھیں ان پر فتح دے دی۔‘‘ [ مسلم، الجہاد، باب غزوۃ ذي قرد وغیرھا : ۱۸۰۷ ] (2) انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہلِ مکہ میں سے اسّی (۸۰) مسلح آدمی جبل تنعیم سے اتر کر آئے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی غفلت سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے، مگر آپ نے انھیں زندہ سلامت گرفتار کر لیا۔ پھر انھیں زندہ ہی رہنے دیا تو اللہ عز و جل نے یہ آیت اتاری : ﴿وَ هُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ﴾ [ الفتح:۲۴]’’اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے، اس کے بعد کہ تمھیں ان پر فتح دے دی۔‘‘ [ مسلم، الجہاد، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿وھو الذی کف أیدیہم عنکم﴾ : ۱۸۰۸ ] (3) عبد اللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں اس درخت کے نیچے موجود تھے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے۔ اس کی ٹہنیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر سے لگ رہی تھیں اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور سہیل بن عمرو آپ کے سامنے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’لکھو، بسم اللہ الرحمن الرحیم۔‘‘ تو سہیل نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا: ’’ہم نہیں جانتے رحمان کیا ہوتا ہے، ہمارے معاملے میں وہی لکھو جو ہمارے ہاں معروف ہے۔‘‘ اس نے کہا : ’’یہ لکھو : ’’ بِسْمِكَ اللّٰهُمَّ۔‘‘ پھر انھوں نے لکھا : ’’یہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ مکہ سے صلح کی ہے۔‘‘ تو سہیل بن عمرو نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا : ’’اللہ کی قسم! اگر آپ اللہ کے رسول ہوں تو ہم نے آپ پر ظلم کیا، ہمارے معاملے میں وہ لکھو جو ہمارے ہاں معروف ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لکھو، یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب نے صلح کی ہے اور میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔‘‘ یہ معاملہ ہو رہا تھا کہ تیس مسلح نوجوان نکل کر ہمارے سامنے آ گئے اور ہمارے سامنے آ کر مشتعل ہو گئے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر بددعا کی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اندھا کر دیا، ہم نے بڑھ کر انھیں گرفتار کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا : ’’کیا تم کسی کے عہد میں آئے ہو یا کسی نے تمھیں امان دی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’نہیں!‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں رہا کر دیا، اس پر اللہ عز و جل نے یہ آیت نازل فرمائی : ﴿ وَ هُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ﴾ [ الفتح : ۲۴ ] ’’اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے، اس کے بعد کہ تمھیں ان پر فتح دے دی اور اللہ اس کو جو تم کرتے ہو، ہمیشہ سے خوب دیکھنے والا ہے۔ ‘‘ [ مسند أحمد:۴ ؍۸۶،۸۷،ح:۱۶۸۰۵ ] مسند احمد کے محققین نے اسے صحیح کہا ہے۔ 2۔ یہاں بیت اللہ والے شہر کا نام ’’مکہ‘‘ بیان فرمایا ہے، جب کہ سورۂ آلِ عمران (۹۶) میں اس کا نام ’’بکہ‘‘ قرار دیا ہے، معلوم ہوا اس شہر کے دونوں نام ہیں۔ 3۔ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا: یعنی اللہ تعالیٰ کفار کی سرا سر زیادتی اور تمھارے صبر اور اطاعت کو خوب دیکھ رہا تھا، اس کے باوجود اس نے بہت سی مصلحتوں کے پیشِ نظر ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے۔