سورة الفتح - آیت 18

لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یقیناً اللہ مومنوں سے راضی ہوگیا، جب وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت (١٢) کر رہے تھے، پس وہ جان گیا اس اخلاص کو جوان کے دلوں میں تھا، اس لئے ان پر سکون و اطمینان نازل کیا، اور بطور جزا ایک قربی فتح سے نوازا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ....: اس سے پہلے ’’ اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ ‘‘ میں حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کو اللہ تعالیٰ سے بیعت قرار دینے کے بعد اس سے پیچھے رہنے والوں کا حال بیان فرمایا، اب دوبارہ بیعت کرنے والوں پر اپنی رضا کا اور دوسری بشارتوں کا ذکر فرمایا۔ 2۔ اس درخت کے نیچے بیعت کرنے والے صحابہ کرام کو بیعت کے وقت ہی کائنات کی سب سے بڑی نعمت مل گئی اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی، کیونکہ اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ﴾ [ التوبۃ : ۷۲ ] ’’اور اللہ کی طرف سے تھوڑی سی خوشنودی سب سے بڑی ہے۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ﴾ ’’بلاشبہ یقیناً اللہ ایمان والوں سے اس وقت راضی ہو گیا جب وہ اس درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے۔‘‘ اس رضا ہی کی وجہ سے اس کا نام بیعتِ رضوان ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کا داخلہ لازم و ملزوم ہیں۔ (دیکھیے مجادلہ: ۲۲۔ توبہ: ۷۲) جب ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے شہادت دے دی کہ وہ ان پر راضی ہو گیا تو کس قدر بد نصیب ہے وہ گروہ جو ان مقبول بندوں سے ناراض اور ان سے بغض و عداوت رکھے اور کہے کہ وہ بعد میں نعوذ باللہ مرتد ہو گئے۔ کیا اللہ تعالیٰ کو آئندہ کا علم نہیں تھا اور وہ رضا کیسی ہے جس کے باوجود وہ بندے مرتد ہو جائیں جن پر وہ راضی ہے ؟ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے علاوہ مزید حاصل ہونے والی نعمتوں کا بیان آگے آ رہا ہے۔ قرآن مجید کے علاوہ صحیح احادیث میں بھی بیعت رضوان میں شریک صحابہ کی بہت زیادہ فضیلت آئی ہے۔ عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما سے سنا، وہ بیان کرتے ہیں : ’’حدیبیہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا : (( أَنْتُمْ خَيْرُ أَهْلِ الْأَرْضِ ] ’’تم زمین والوں میں سب سے بہتر ہو۔‘‘ اور (اس وقت) ہم چودہ سو تھے اور اگر آج مجھے دکھائی دیتا ہوتا تو میں تمھیں اس درخت کی جگہ دکھاتا۔‘‘ [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الحدیبیۃ : ۴۱۵۴ ] ام مبشر رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے حفصہ رضی اللہ عنھا کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا : (( لَا يَدْخُلُ النَّارَ، إِنْ شَاءَ اللّٰهُ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ أَحَدٌ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا تَحْتَهَا )) [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب من فضائل أصحاب الشجرۃ....: ۲۴۹۶ ] ’’ان شاء اللہ اس درخت والوں میں سے کوئی بھی آگ میں داخل نہیں ہو گا جنھوں نے اس کے نیچے بیعت کی۔‘‘ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حاطب رضی اللہ عنہ کا ایک غلام حاطب رضی اللہ عنہ کی شکایت لے کر آیا اور کہنے لگا : ’’یا رسول اللہ! حاطب ضرور آگ میں داخل ہو گا۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كَذَبْتَ لَا يَدْخُلُهَا فَإِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا وَالْحُدَيْبِيَةَ )) [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب من فضائل حاطب بن أبي بلتعۃ....: ۲۴۹۵ ] ’’تو نے غلط کہا، وہ آگ میں داخل نہیں ہو گا، کیونکہ اس نے تو بدر اور حدیبیہ میں شرکت کی ہے۔‘‘ 3۔ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (( كُنَّا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَلْفًا وَ أَرْبَعَ مِائَةٍ فَبَايَعْنَاهُ وَعُمَرُ آخِذٌ بِيَدِهِ تَحْتَ الشَّجَرَةِ وَهِيَ سَمُرَةٌ )) [ مسلم، الإمارۃ، باب استحباب مبایعۃ الإمام الجیش....: ۱۸۵۶ ] ’’ہم حدیبیہ کے دن چودہ سو تھے، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور عمر رضی اللہ عنہ درخت کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور وہ کیکر کا درخت تھا۔‘‘ 4۔ طارق بن عبد اللہ نے بیان کیا کہ میں حج کرنے کے لیے گیا تو میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہے ہیں، میں نے پوچھا: ’’کیا یہ نماز کی جگہ ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’یہ وہ درخت ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعتِ رضوان لی تھی۔‘‘ میں سعید بن مسیب کے پاس آیا اور انھیں بتایا تو سعید نے فرمایا :’’ میرے والد نے مجھے بتایا کہ وہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، تو جب ہم اگلے سال آئے تو ہمیں وہ درخت بھلا دیا گیا، ہم اسے پا ہی نہ سکے۔‘‘ سعید نے فرمایا : ’’اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تو وہ معلوم نہ ہوا اور تم نے اسے جان لیا، پھر تم زیادہ جاننے والے ہوئے؟‘‘ [بخاري، المغازي، باب غزوۃ الحدیبیۃ:۴۱۶۳] عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے فرمایا : (( رَجَعْنَا مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فَمَا اجْتَمَعَ مِنَّا اثْنَانِ عَلَی الشَّجَرَةِ الَّتِيْ بَايَعْنَا تَحْتَهَا، كَانَتْ رَحْمَةً مِّنَ اللّٰهِ )) [بخاري، الجھاد والسیر، باب البیعۃ في الحرب أن لا یفروا : ۲۹۵۸ ] ’’ہم آئندہ سال دوبارہ آئے تو ہم میں سے دو شخص بھی اس درخت پر متفق نہ ہو سکے جس کے نیچے ہم نے بیعت کی تھی، یہ اللہ کی طرف سے رحمت تھی۔‘‘ فتح الباری میں اس کی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’اس میں حکمت یہ تھی کہ اس درخت کے نیچے خیر کے اس کام کی وجہ سے لوگ فتنے میں مبتلا نہ ہو جائیں، کیونکہ اگر اس کی پہچان باقی رہتی تو بعض جاہل لوگوں سے اس کی تعظیم کا خطرہ تھا، حتیٰ کہ ممکن تھا کہ وہ یہ عقیدہ رکھ لیتے کہ اس درخت میں نفع اور نقصان پہنچانے کی طاقت ہے، جیسا کہ اب اس سے بھی معمولی چیزوں میں اس کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔‘‘ ابن حجر نے اپنے زمانے کی بات کی ہے، ہمارے دور میں تو آثار پرستی کا معاملہ اس سے بھی کہیں دور پہنچ چکا ہے۔ آج کل جو لوگ پیروں فقیروں کے آستانوں کے درختوں، پتھروں اور قبروں کو پوجنے سے نہیں چوکتے اگر انھیں وہ درخت مل جاتا تو وہ کیا کچھ نہ کرتے۔ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ: یعنی اللہ تعالیٰ نے اس صدق، اخلاص اور سمع و طاعت کو جان لیا جس کی وجہ سے انھوں نے دشمن کے اعتبار سے تعداد میں بہت کم ہونے اور تقریباً نہتے ہونے کے باوجود آخر دم تک میدان میں جمے رہنے کی بیعت کی اور اس سخت اضطراب اور بے قراری کو بھی جو ان کے دل میں صلح کی ناگوار شرطوں پر پیدا ہوئی، جس کا باعث کوئی نافرمانی نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی محبت اور ان کی عزت اور سربلندی کا جذبہ تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے صدق و اخلاص کی بدولت ان کے دل پر سکینت نازل فرمائی، جس کی بدولت انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم پر دلی اطمینان اور سکون حاصل ہوگیا اور وہ جس طرح موت تک لڑنے کے لیے تیار تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبول کردہ شرطوں پر صلح کے لیے بھی تیار ہو گئے۔ 6۔ یہ آیت بیعتِ رضوان والے صحابہ کے مخلص مومن ہونے کی واضح دلیل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کے دلوں کے اخلاص کی شہادت دی ہے۔ نہایت بدنصیب ہیں وہ لوگ جو ایسے مخلص ایمان والوں کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ منافق تھے۔ [ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ] وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا: عام مفسرین اس ’’فتح قریب‘‘ سے مراد فتح خیبر لیتے ہیں اور یہ کچھ بعید بھی نہیں، مگر اہلِ علم کا ایک قول اس کے بارے میں یہ بھی ہے کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے، کیونکہ بیعتِ رضوان کے بعد یہی وہ بنیادی اور اہم فتح تھی جس سے مسلمانوں کے لیے دوسری تمام فتوحات کے راستے کھل گئے اور اس کے کچھ ہی عرصہ بعد خیبر فتح ہوا، پھر مکہ مکرمہ کی فتح ہوئی، حتیٰ کہ پورا جزیرۂ عرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اسلام کے زیر نگیں آ گیا۔ اس سورت کی ابتدا میں اس صلح ہی کو فتح مبین فرمایا ہے۔