وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ۖ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
اور تاکہ منافق مردوں اور عورتوں کو، اور مشرک مردوں اور عورتوں کو عذاب (٥) دے، جو اللہ کے ساتھ بد گمانی رکھتے ہیں، مصیبت لوٹ کر انہی پر آنے والی ہے، اور اللہ ان سے غضبناک ہوگیا ہے، اور ان پر لعنت بھیج دی ہے، اور ان کے لئے جہنم کو تیار کررکھا ہے، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے
1۔ وَ يُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِيْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ ....: اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ سکینت کی بدولت ایمان والے مجاہد مردوں اور عورتوں کے جنت میں داخلے کے ذکر کے بعد ان لوگوں کو عذاب دینے کا ذکر فرمایا جو اس غزوہ کے نتیجے میں اللہ کے غضب اور لعنت کا نشانہ بنے اور جہنم ان کا ٹھکانا بنی۔ منافقین و کفار کو یہ عذاب مسلمانوں کی تلواروں کے ساتھ بھی دیا گیا، جیسا کہ فرمایا: ﴿ قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ ﴾ [ التوبۃ : ۱۴] ’’ان سے لڑو، اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے عذاب دے گا۔‘‘ اور مسلسل خوف اور رسوائی کے ساتھ بھی اور مسلمانوں کی کامیابیاں اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھنے کی صورت میں بھی۔ آخرت کا عذاب اس کے علاوہ اور ان سب سے بڑھ کر ہے۔ یہاں منافقین کا ذکر کفار سے پہلے کرنے کا مقصد مسلمانوں کو آگاہ کرنا ہے کہ منافقین کا کفر پوشیدہ ہے، اس لیے وہ زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں، لہٰذا مسلمانوں کو نہ انھیں بھولنا چاہیے اور نہ ان سے کبھی غافل ہونا چاہیے۔ منافق اور مشرک مردوں کے ساتھ منافق اور مشرک عورتوں کا ذکر اس لیے فرمایا کہ وہ بھی ان کی پوری طرح راز دار، ہر طرح سے معاون اور تمام سازشوں میں شریک ہیں۔ 2۔ الظَّآنِّيْنَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوْءِ: ’’منافقین‘‘ سے مراد مدینہ منورہ کے منافقین ہیں اور ’’مشرکین‘‘ سے مراد مکہ معظمہ کے مشرکین۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ذلت و رسوائی کا عذاب دیا، اس لیے کہ منافقین کا اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ غلط گمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جو عمرۂ حدیبیہ ادا کرنے کے لیے آپ کے ساتھ گئے ہیں وہ واپس مدینہ نہیں آ سکیں گے، مشرکین انھیں وہیں تباہ و برباد کر دیں گے اور مشرکین نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر گز اپنے دین کو مٹنے سے نہیں بچا سکے گا اور کفر کا کلمہ بلند ہو کر رہے گا۔ (قرطبی وغیرہ) 3۔ عَلَيْهِمْ دَآىِٕرَةُ السَّوْءِ: اس جملے کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ توبہ کی آیت (۹۸) کی تفسیر۔ یہاں کچھ عبارت محذوف ہے جو خود بخود سمجھ میں آ رہی ہے : ’’ أَيْ اَلظَّانِّيْنَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوْءِ وَالْمُتَرَبِّصِيْنَ لَكُمُ الدَّوَائِرَ، عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ‘‘ ’’(تاکہ ان منافقین و منافقات اور مشرکین و مشرکات کو عذاب دے) جو اللہ کے متعلق برا گمان کرنے والے اور تم پر زمانے کی گردشوں کا انتظار کرنے والے ہیں، بری گردش خود انھی پر آنے والی ہے۔‘‘