سورة محمد - آیت 37

إِن يَسْأَلْكُمُوهَا فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا وَيُخْرِجْ أَضْغَانَكُمْ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اگر وہ تم سے مال مانگتا، اور اس پر تم سے اصرار کرتا تو تم بخل پرآمادہ ہوجاتے، اور وہ تمہارے کینوں کو ظاہر کر دیتا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنْ يَّسْـَٔلْكُمُوْهَا فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوْا ....: ’’ فَيُحْفِكُمْ ‘‘ ’’ أَحْفٰي يُحْفِيْ إِحْفَاءً ‘‘ (افعال) کا معنی کسی چیز کو سمیٹ کر پوری کی پوری لے لینا، یا کسی چیز کا اصرار کے ساتھ مطالبہ کرنا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ تم سے تمھارے سارے اموال مانگ لے تو یہ اس کا حق ہے، کیونکہ وہ سب اسی کے دیے ہوئے ہیں مگر یہ اس کا کرم ہے کہ وہ تم سے تمھارے اموال پورے کے پورے نہیں مانگتا، کیونکہ اگر وہ سب کے سب اصرار کے ساتھ مانگ لے تو تم بخل کرو گے اور تمھارا بخل تمھارے دل میں پیدا ہونے والے تمام کینے ظاہر کر دے گا، جو سارا مال مانگنے کی وجہ سے تمھارے دل میں پیدا ہوں گے، کیونکہ مال تمھارا محبوب ہے اور جس کے محبوب کو اس سے مانگا جائے اس کے دل میں مانگنے والے کے خلاف کینہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تم سے مطالبہ ہی اتنا کیا ہے جس سے تم اتنی سخت آزمائش میں نہ پڑو اور اگر کسی دل میں نفاق یا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کینے کی کوئی بات ہو بھی تو اس پر پردہ پڑا رہے۔ آیات کا مقصد اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب اور یہ حوصلہ دلانا ہے کہ تم سے کوئی مشکل مطالبہ نہیں کیا جا رہا جو تم پورا نہ کر سکو، اس لیے خوش دلی کے ساتھ جہاد میں اپنے اموال خرچ کرو۔