طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَّعْرُوفٌ ۚ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ
فرمانبرداری اور اچھی بات کہنا ان کے لئے زیادہ بہتر تھا، پس جب جہاد کا پختہ ارادہ ہوگیا، تو ان کی طرف سے اللہ کے ساتھ صدق و صفا کا معاملہ ہی ان کے لئے بہتر تھا
1۔ طَاعَةٌ وَّ قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ: اس کا تعلق یا تو پچھلی آیت کے آخری لفظ ’’ فَاَوْلٰى لَهُمْ ‘‘ کے ساتھ ہے، جیسا کہ گزرا اور اگر اسے نیا جملہ سمجھا جائے تو اس کی ترکیب دو طرح سے ہو سکتی ہے، ایک یہ کہ یہ مبتدا ہے اور اس کی خبر ’’ خَيْرٌ لَّهُمْ‘‘ محذوف ہے، یعنی حکم ماننا اور اچھی بات کہنا ان کے لیے بہتر ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ مبتدا محذوف ’’أَمْرُنَا‘‘ کی خبر ہے، یعنی وہ کہتے ہیں کہ ہمارا کام تو اطاعت کرنا اور اچھی بات کہنا ہے۔ 2۔ فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللّٰهَ ....: یعنی کہتے تو وہ یہی ہیں کہ ہمارا کام ’’سَمِعْنَا وَ أَطَعْنَا‘‘ یعنی حکم ماننا اور اچھی بات کہنا ہے، مگر جب جہاد کا قطعی اور لازمی حکم آ جائے تو وہ اپنی بات میں جھوٹے نکلتے ہیں، اگر وہ اس وقت اپنی بات میں اللہ سے سچے رہیں تو یقیناً ان کے لیے بہتر ہے۔