وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ حَتَّىٰ إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِندِكَ قَالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ
اور ان میں سے بعض آپ کی باتیں کان لگا کر سنتے (٨) ہیں، یہاں تک کہ جب وہ آپ کے پاس سے نکل کر باہر جاتے ہیں تو اہل علم صحابہ سے پوچھتے ہیں کہ ابھی انہوں نے کیا کہا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے، اور اپنی خواہشات کے پیروکار ہیں
1۔ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُ اِلَيْكَ: مشرکین اور ان کے انجامِ بد کے ذکر کے بعد اہل کتاب کفار اور کفار کی بدترین قسم منافقین کا ذکر فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتے، آپ کی باتیں کان لگا کر سنتے، مگر ماننے کے لیے نہیں، بلکہ اپنی مفید مطلب باتیں ڈھونڈنے کے لیے، جن کے ساتھ وہ لوگوں کو اسلام سے بدظن کرتے۔ چونکہ ان کے دل و دماغ پر کفر حاوی تھا، قیامت پر ایمان وہ نہیں رکھتے تھے، اس لیے ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں اجنبی تھیں، ان کے دل میں وہ مفہوم بیٹھتا ہی نہیں تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا ہوتا تھا۔ وہ سمجھ ہی نہیں سکتے تھے کہ کوئی شخص ان کے خیال میں موہوم آخرت کے لیے اپنی دنیا کا نقصان بھی کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس شخص کی ساری تگ و دو ہی دنیا کے لیے ہو وہ پیغمبروں کی بات سمجھ ہی نہیں سکتا، جیسا کہ شعیب علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا: ﴿ يٰشُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ﴾ [ھود : ۹۱] ’’اے شعیب! ہم اس میں سے بہت سی باتیں نہیں سمجھتے جو تو کہتا ہے۔‘‘ 2۔ حَتّٰى اِذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِكَ قَالُوْا لِلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ....: ’’ اُوْتُوا الْعِلْمَ ‘‘ سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی ذات و صفات، اپنے پیغمبروں، اپنی کتابوں، اپنے فرشتوں، یوم آخرت اور تقدیر کے علم اور ان سب پر ایمان کی روشنی عطا فرما رکھی تھی۔ یعنی جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے نکلتے ہیں تو آپ کی باتوں کی تحقیر کرتے ہوئے اور ان کا مذاق اڑاتے ہوئے علم و ایمان سے آراستہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے کہتے ہیں کہ ہماری سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا کہ ابھی ابھی اس نے کیا کہا ہے، کیا آپ لوگوں کی سمجھ میں کچھ آیا ہے ؟ 3۔ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ: فرمایا ان کے نہ سمجھنے کی دو وجہیں ہیں، ایک تو یہ کہ ان کے کفر پر اصرار اور عناد کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر کر دی ہے، اس لیے وہ سمجھ سکتے ہی نہیں، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَّ قَوْلِهِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا ﴾ [النساء: ۱۵۵] ’’اور ان کے یہ کہنے کی وجہ سے کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں، بلکہ اللہ نے ان پر ان کے کفر کی وجہ سے مہر کر دی تو وہ ایمان نہیں لاتے مگر بہت کم۔ ‘‘ 4۔ وَ اتَّبَعُوْا اَهْوَآءَهُمْ: یہ نہ سمجھنے کی دوسری وجہ ہے کہ وہ کوئی عقلی دلیل سننے کے لیے تیار نہیں، بلکہ صرف وہ کام کرنا چاہتے ہیں جو ان کی خواہش کے مطابق ہوں اور مرضی کے خلاف وہ کوئی پابندی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جب کسی کی یہ حالت ہو جائے تو فی الواقع اس کی خواہش کے خلاف کوئی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی، نہ ہی وہ اسے ماننے کے لیے تیار ہوتا ہے، خواہ وہ کتنی اچھی ہو۔