سورة محمد - آیت 15

مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ فِيهَا أَنْهَارٌ مِّن مَّاءٍ غَيْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِّن لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ وَأَنْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى ۖ وَلَهُمْ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ ۖ كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَهُمْ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اس جنت کی مثال (٧) جس کا پرہیز گاروں سے وعدہ کیا گیا ہے، یہ ہے کہ اس میں کبھی خراب نہ ہونے والے پانی کی نہریں جاری ہیں، اور ایسے دودھ کی نہریں جس کا ذائقہ کبھی نہیں بد لے گا، اور ایسی شراب کی نہریں جو پینے والوں کے لئے نہایت لذیذ ہوگی، اور خالص شہد کی نہریں ہیں، اور ان کے لئے اس میں انواع و اقسام کے پھل ہیں، اور انہیں اپنے رب کی مغفرت ملے گی، کیا یہ اہل جنت ان کے مانند ہوں گے جو ہمیشہ کے لئے جہنم میں جلتے رہیں گے، اور جنہیں کھولتا ہوا گرم پانی پلایا جائے گا، جو ان کی انتڑیوں کو کاٹ ڈالے گا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ....: ’’ مَثَلُ ‘‘ کا معنی یہاں حال یا صفت ہے۔ اس سے پہلے مومنوں کو جنتوں میں داخل کرنے کا ذکر فرمایا، جن کے تلے نہریں بہتی ہیں اور کفار کا ٹھکانا آگ بیان فرمایا۔ اب اس جنت اور جہنم کا کچھ مزید حال بیان فرمایا، خصوصاً جنت کی نہروں کا، کیونکہ قرآن مجید میں اکثر جنت کے ساتھ اس کی نہروں کا ذکر بھی آتا ہے۔ اس آیت میں جنت کی چار قسم کی نہروں کا ذکر فرمایا ہے۔ واضح رہے کہ جنت کی تمام نہروں کا سرچشمہ عرش کے نیچے جنت الفردوس ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰهَ فَسَلُوْهُ الْفِرْدَوْسَ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الْجَنَّةِ وَأَعْلَی الْجَنَّةِ، وَ فَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ )) [ بخاري، التوحید، باب: ﴿ و کان عرشہ علی الماء﴾....: ۷۴۲۳ ] ’’تو جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو، کیونکہ وہ جنت کا افضل اور جنت کا سب سے بلند مقام ہے اور اس سے اوپر رحمان کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔‘‘ اور معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَحْرَ الْمَاءِ وَ بَحْرَ الْعَسَلِ وَبَحْرَ اللَّبَنِ وَبَحْرَ الْخَمْرِ ثُمَّ تُشَقَّقُ الْأَنْهَارُ بَعْدُ )) [ ترمذي، صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صفۃ أنھار الجنۃ : ۲۵۷۱، و قال الترمذي و الألباني صحیح ] ’’جنت میں پانی کا سمندر ہے اور شہد کا سمندر ہے اور دودھ کا سمندر ہے اور شراب کا سمندر ہے، پھر بعد میں نہریں پھوٹتی ہیں۔‘‘ فِيْهَا اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّآءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ: ’’ اٰسِنٍ ‘‘ ’’أَسِنَ يَأْسَنُ‘‘ سے اسم فاعل ہے، جس طرح ’’أَمِنَ يَأْمَنُ‘‘ سے ’’آمِنٌ‘‘ اسم فاعل ہے۔ یہ باب ’’ضَرَبَ‘‘ اور ’’ نَصَرَ‘‘ کے وزن پر بھی آتا ہے : ’’أَيْ مُتَغَيَّرُ اللَّوْنِ وَالرِّيْحِ وَالطَّعْمِ‘‘ ’’جس کا رنگ، بو اور ذائقہ بدلا ہوا ہو۔‘‘ یعنی جنت میں ایسے پانی کی نہریں ہیں جو ایسا صاف ہے کہ اس کے ذائقے یا رنگ یا بو میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی، بخلاف دنیا کے پانی کے جو کچھ عرصہ گزرنے پر اپنے رنگ، ذائقہ اور بو کی صفائی کھو بیٹھتا ہے، اس پر کائی آ جاتی ہے، گرد و غبار کے ساتھ گندا ہو جاتا ہے اور اس میں پیدا ہونے والے جراثیم اور دوسری چیزیں اسے پینے کے قابل نہیں چھوڑتیں۔ وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهٗ: دنیا میں جانوروں کے تھنوں سے جو دودھ نکلتا ہے اس میں کچھ تو تھنوں کی آلائش کی آمیزش ہو جاتی ہے اور کچھ دوہنے والے کے ہاتھوں اور ماحول کے گرد و غبار کی، پھر اگر دودھ کچھ دیر پڑا رہے تو پھٹ جاتا ہے، اس کا ذائقہ ترش اور بد مزہ ہو جاتا ہے اور اس میں سے بدبو آنے لگتی ہے۔ جنت میں دودھ تھنوں سے نہیں نکلے گا بلکہ پانی کی طرح چشموں سے رواں ہو گا اور اپنی اصلی حالت میں بدستور قائم رہے گا، اس کے ذائقے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ: ’’ لَذَّةٍ ‘‘ ’’لَذٌّ‘‘ کی مؤنث ہے، کیونکہ یہ ’’ خَمْرٍ ‘‘ کی صفت ہے جو مؤنث سماعی ہے۔ ’’ لَذٌّ‘‘ اور ’’لَذِيْذٌ‘‘ دونوں صفت مشبّہ ہیں اور دونوں کا معنی ایک ہے۔ دنیا میں لوگ شراب صرف اس سرور کے لیے پیتے ہیں جو اس کے پینے سے حاصل ہوتا ہے اور وہ اس سرور کی خاطر شراب کی ان تمام قباحتوں کو برداشت کرتے ہیں جو اس میں پائی جاتی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں کہ وہ نہایت بدبو دار ہوتی ہے، تلخ اور بدذائقہ ہوتی ہے۔ اس کے پینے سے آدمی عقل کھو بیٹھتا ہے، الٹیاں آتی ہیں اور جب نشہ ٹوٹتا ہے تو سر چکرانا اور درد شروع ہو جاتا ہے۔ جنت کی شراب میں دنیا کی شراب کی کوئی خرابی نہیں ہو گی، نہ درد سر، نہ چکر، نہ بدبو اور نہ ذائقے کی تلخی، بلکہ وہ نہایت لذیذ ہو گی اور فرحت و سرور لائے گی، عقل پر پردہ یا کوئی اور خرابی نہیں لائے گی۔ وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى: دنیا کا شہد مکھی کے پیٹ سے نکلتا ہے، اسے حاصل کرتے وقت مکھیوں اور اس کے بچوں کے کچھ اجزا، موم، گرد و غبار اور تنکے وغیرہ لازماً شامل ہو جاتے ہیں، پھر دیر تک پڑا رہنے سے کھٹا ہو جاتا ہے، اس میں خمیر پیدا ہو جاتا ہے۔ غرض اس کے پوری طرح صاف ہونے اور رہنے کی کوئی صورت ہی نہیں، جب کہ جنت کی نہروں کا شہد مکھیوں کے پیٹ کا مرہونِ منت نہیں بلکہ براہ راست شہد کے سمندر سے نکل کر ہر جنتی کے گھر پہنچتا ہے اور ہمیشہ نہایت صاف شفاف اور ہر قسم کی کدورت سے پاک رہتا ہے۔ صاحب احسن التفاسیر لکھتے ہیں : ’’اگرچہ جنت میں کھانے پینے، پہننے، برتنے کی جتنی چیزیں ہیں ان کے فقط نام دنیا کی چیزوں سے ملتے ہیں، لیکن جنت کی چیزوں اور دنیا کی چیزوں میں بڑا فرق ہے۔ مثلاً دنیا میں ایسا دودھ کہاں ہے جس کی ہمیشہ نہر بہتی ہو اور پھر دوسرے دن ہی وہ کھٹا نہ ہو جائے۔ وہ شہد کہاں ہے جس کی نہر بہتی ہو اور مکھیوں کی بھنکار اس میں جم جم کر نہ مرے اور ہوا سے خاک اور کوڑا کرکٹ اس پر نہ پڑے۔ وہ شراب کہاں ہے جس کی نہر ہو اور بدبو کے سبب اس نہر کے آس پاس کا راستہ کچھ دنوں میں بند نہ ہو جائے۔‘‘ وَ لَهُمْ فِيْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ: پینے کی چیزوں کے بعد کھانے کی چیزوں کا اختصار کے ساتھ ذکر فرمایا اور ان میں سے بھی اناج وغیرہ کے بجائے پھلوں کا ذکر فرمایا، کیونکہ جنت کے کھانے بھوک مٹانے کے لیے نہیں بلکہ محض لذت کے لیے ہوں گے، فرمایا: ﴿اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْهَا وَ لَا تَعْرٰى ﴾ [طٰہٰ: ۱۱۸] ’’بے شک تیرے لیے یہ ہے کہ تو اس میں نہ بھوکا ہو گا اور نہ ننگا ہوگا۔ ‘‘ اور لذت میں پھلوں کا مقام سب جانتے ہیں۔ وَ مَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ: ’’ مَغْفِرَةٌ ‘‘ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ’’بڑی یا عظیم مغفرت‘‘ ہو گا۔ اور اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت یہ ہو گی کہ انھیں عظیم مغفرت سے نوازا جائے گا۔ ’’غَفَرَ يَغْفِرُ‘‘ کا اصل معنی پردہ ڈالنا ہے، یعنی جنت میں ان کے گناہوں پر ان کے رب کی طرف سے ایسا عظیم پردہ ڈالا جائے گا کہ ان کا ذکر تک ان کے سامنے نہیں آئے گا کہ وہ کہیں شرمندہ نہ ہوں۔ كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ: یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے جو پچھلی آیت: ﴿ اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ كَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ وَ اتَّبَعُوْا اَهْوَآءَهُمْ﴾ سے سمجھ میں آ رہا ہے : ’’ أَيْ أَفَمَنْ هُوَ مِنْ أَهْلِ هٰذِهِ الْجَنَّةِ كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ‘‘ ’’یعنی تو کیا وہ شخص جو ان اوصاف والی جنت والوں میں سے ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو ہمیشہ آگ میں رہنے والا ہے؟‘‘ وَ سُقُوْا مَآءً حَمِيْمًا: اور جنھیں کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا۔ اس سے پہلے جملے ’’ كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ ‘‘ میں لفظ ’’مَنْ‘‘ کے مفرد ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ واحد کا صیغہ ’’ هُوَ ‘‘ استعمال ہوا ہے اور اس جملے میں ’’مَنْ‘‘ کے معنی کے عام ہونے کو ملحوظ رکھتے ہوئے جمع کا صیغہ ’’ سُقُوْا ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ 10۔ فَقَطَّعَ اَمْعَآءَهُمْ: ’’قَطَعَ يَقْطَعُ قَطْعًا‘‘ (ف) کاٹنا۔ ’’ قَطَّعَ يُقَطِّعُ تَقْطِيْعًا ‘‘ (تفعیل) میں مبالغہ ہے، ٹکڑے ٹکڑے کرنا۔ ’’ اَمْعَآءَهُمْ ‘‘ ’’مِعًي‘‘ کی جمع ہے جو اصل میں ’’مِعَيٌ‘‘ بروزن ’’عِنَبٌ‘‘ ہے۔ یاء پر ضمہ ثقیل ہونے کی وجہ سے گرا دیا، یاء اور نونِ تنوین دو ساکن جمع ہونے کی وجہ سے یاء کو گرا دیا تو ’’مِعًي‘‘ ہو گیا، جس کا تثنیہ ’’مِعَيَانِ‘‘ اور ’’مِعَيَيْنِ‘‘ آتا ہے۔ اس جیسا ایک اور لفظ ’’ آنَاءٌ‘‘ ہے جو ’’ إِنًي‘‘ کی جمع ہے۔ ’’ آنَاءَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ‘‘ ’’دن رات کی گھڑیاں۔‘‘ یعنی جہنمیوں کو انتہا درجے کا گرم کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا جو ان کی انتڑیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔