سورة محمد - آیت 2

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیا، اور محمد پر جو نازل کیا گیا اس پر ایمان لائے، اور وہی ان کے رب کا دین برحق ہے، اللہ نے ان کے گناہ مٹا دئیے، اور ان کی حالت کی اصلاح کر دی

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ....: ’’ اٰمَنُوْا ‘‘ میں اگرچہ عمل صالح بھی شامل ہے، کیونکہ عمل بھی ایمان کا جزو ہے، مگر اس کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے اسے علیحدہ بھی ذکر فرمایا۔ دیکھیے سورۂ عصر کی تفسیر۔ اسی طرح ’’اٰمَنُوْا‘‘ میں اگرچہ دوسری ایمانیات کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر نازل شدہ وحی پر ایمان بھی شامل ہے مگر اس کا شرف نمایاں کرنے کے لیے اس کا الگ بھی ذکر فرمایا۔ خصوصاً اس لیے کہ مدینہ میں کچھ ایسے یہود موجود تھے جو ایمان بالغیب کی تمام جزئیات پر ایمان رکھتے تھے اور نیک اعمال بھی بجا لاتے تھے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی ماننے کے باوجود یہ کہہ کر ایمان لانے سے انکار کر دیتے تھے کہ آپ اُمیوں کے نبی ہیں۔ اب بھی کئی لوگ کہتے ہیں کہ کوئی یہودی رہے یا نصرانی یا مسلمان، اگر اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اچھے عمل کرتے ہیں تو سب ٹھیک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اب ایمان وہی معتبر ہو گا جس میں ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور آپ کی اطاعت کا عہد شامل ہو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَا يَسْمَعُ بِيْ أَحَدٌ مِنْ هٰذِهِ الْأُمَّةِ يَهُوْدِيٌّ وَلَا نَصْرَانِيٌّ ثُمَّ يَمُوْتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِيْ أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ )) [مسلم، الإیمان، باب وجوب الإیمان برسالۃ نبینا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ۱۵۳ ] ’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! اس امت میں سے کوئی بھی شخص، یہودی ہو یا نصرانی، جو میرے بارے میں سنے، پھر اس حال میں فوت ہو کہ مجھے جو کچھ دے کر بھیجا گیا ہے اس پر ایمان نہ لایا ہو تو وہ آگ والوں میں سے ہو گا۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ سبا (۲۸)۔ وَ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ: ’’ الْحَقُّ ‘‘ جو واقع میں ثابت ہو اور کسی چیز کے اصل کے عین مطابق ہو۔ ’’ الْحَقُّ ‘‘ خبر پر الف لام لانے سے حصر پیدا ہو گیا۔ ’’وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ ‘‘ مبتدا ہے اور ’’ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ وَ اَصْلَحَ بَالَهُمْ‘‘اس کی خبر ہے اور ’’وَ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ‘‘درمیان میں جملہ معترضہ ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ وحی پر ایمان کی مزید تاکید کے لیے لایا گیا ہے۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ وحی ہی کامل حق ہے جو رب تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے۔ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ: ایمان اور عمل صالح کی بدولت اللہ تعالیٰ پہلے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (( فَلَمَّا جَعَلَ اللّٰهُ الْإِسْلَامَ فِيْ قَلْبِيْ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ ابْسُطْ يَمِيْنَكَ فَلِأُبَايِعْكَ فَبَسَطَ يَمِيْنَهُ قَالَ فَقَبَضْتُ يَدِيْ، قَالَ مَا لَكَ يَا عَمْرُو!؟ قَالَ قُلْتُ أَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ بِمَاذَا؟ قُلْتُ أَنْ يُغْفَرَ لِيْ قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ ؟ وَ أَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا ؟ وَ أَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟ )) [ مسلم، الإیمان، باب کون الإسلام یہدم ما قبلہ....: ۱۲۱ ] ’’جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کا خیال ڈالا تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے کہا : ’’اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھائیں تاکہ میں آپ سے بیعت کروں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’عمرو! تمھیں کیا ہوا؟‘‘ میں نے کہا : ’’میں شرط کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کس بات کی شرط کرتے ہو؟‘‘ میں نے کہا : ’’یہ کہ مجھے بخش دیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تمھیں معلوم نہیں کہ اسلام اسے مٹا دیتا ہے جو اس سے پہلے ہو اور ہجرت اسے مٹا دیتی ہے جو اس سے پہلے ہو اور حج اسے مٹا دیتا ہے جو اس سے پہلے ہو۔‘‘ وَ اَصْلَحَ بَالَهُمْ: طبری نے فرمايا : ’’ بَالٌ ‘‘ مصدر کی طرح ہے، جیسا کہ ’’شَأْنٌ‘‘ ہے، اس سے کوئی فعل نہیں بنایا جاتا۔ ضرورت شعری کے بغیر عرب اس کی جمع استعمال نہیں کرتے، اگر جمع بنائیں تو ’’بَالَاتٌ‘‘ بناتے ہیں۔‘‘ شہاب نے فرمایا: ’’ بَالٌ‘‘ حال اور شان کے معنی میں ہوتا ہے، بعض اوقات کسی عظیم معاملے کے ساتھ خاص ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كُلُّ أَمْرٍ ذِيْ بَالٍ )) [ابن ماجہ: ۱۸۹۴] ’’ہر بڑی شان والا کام۔‘‘ اور کبھی دلی خیال کے لیے آتا ہے، مجازاً دل کو بھی کہہ لیا جاتا ہے۔‘‘ اگر یہاں اس کی یہ تفسیر کی جائے تو یہ بھی اچھی تفسیر ہے۔ سفاقسی نے اس کی تفسیر فکر (سوچ) کے ساتھ کی ہے، کیونکہ جب دل اور سوچ درست ہو جائیں تو عقیدہ اور عمل سب درست ہو جاتے ہیں۔‘‘ (تفسیر قاسمی) مطلب یہ ہے کہ کفار کے اعمال کو اللہ تعالیٰ ضائع اور برباد کر دیتا ہے، اس کے بر عکس ایمان اور عمل صالح والوں کے گناہ معاف کر دیتا ہے، ان کا حال درست کر دیتا ہے اور ان کے دل اور سوچ کی اصلاح کر دیتا ہے اور انھیں شرک کے بجائے توحید کی، نافرمانی کے بجائے اتباعِ سنت کی اور گناہوں کے بجائے اعمالِ صالحہ کی توفیق سے نوازتا ہے، حتیٰ کہ ان کے گزشتہ گناہوں کو بھی نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ دیکھیے سورۂ فرقان (۷۰)۔